آداب تلاوت قرآن۔آخری قسط
آداب تلاوت قرآن:
(۱) پہلی چیز جس کا لحاظ کرنا قاری پر ضروری ہے وہ یہ کہ قرآن کی تلاوت سے مقصود محض رضاے الٰہی ہو۔ اس سلسلے میں جس قدر اخلاص اور دل جمعی ہو گی اسی قدر برکات وحسنات کا مستحق ہوگا۔(آداب تلاوت قرآن)
(۲) قرآن کی تلاوت کے وقت یہ تصور جمائے کہ رب تبارک و تعالیٰ سے ہم کلام ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کو دیکھ رہا ہے۔
(۳) تلاوت قرآن سے قبل اپنے منہ کو مسواک سے صاف کرلے، مسواک نہ ہو تو جس چیز سے بھی دانتوں کی صفائی ہو سکے اور میسر ہو اس سے منہ صاف کرلے بشر طیکہ وہ چیز جائز اور پاک ہو، اور مشتبہ ہو تو ترک اولیٰ ہے، ایسی صورت میں صرف انگلیوں پر اکتفاء کرے۔ اور مسواک وغیرہ کی ادائیگی میں سنت پر عمل کرنے کی نیت کرے تاکہ تطہیر فم (منہ کی صفائی) کے ساتھ ساتھ ثواب بھی حاصل ہو۔ بعض بزرگوں سے مسواک کے وقت یہ دعا بھی منقول ہے:
اللّٰهمَّ بَارِك لي فِيهِ يَا أَرْحَمَ الرّاحِمِينَ (اے اللہ میرے لیے اس میں برکت دے، اے تمام رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم فرمانے والے)
(۴) قرآن کی تلاوت کرنے کے ساتھ اس کے معانی پر بھی غور کرتا جائے۔ اوامر کے امتثال کا ارادہ کرے اور مناہی و منکرات سے پر ہیز کا عزم رکھے۔ جو گناہ ہو چکے ہوں ان سے توبہ کر لے۔ آیت رحمت پر شکر گزار ہو اور امید رحمت رکھے۔ آیات ترہیب سے خوف زدہ ہو اور عذاب الٰہی سے بچنے کی فکر کرے۔ اور واقعات وامثال سے عبرت پکڑے اور پورے خشوع و خضوع کے ساتھ تلاوت کرے۔
(۵) اور بہتر ہے کہ تلاوت قرآن میں گریہ وزاری کرے۔ رونانہ آئے تو رونے کی سی صورت ہی بنالے کہ یہ عارفین اور اولیاء اللہ کی صفت ہے۔
قرآن شریف دیکھ کر پڑھنا افضل ہے:
(۶) قرآن شریف کل یا جر جس قدر بھی یاد ہو اس کو دیکھ کر پڑھنا زبانی (بے دیکھے) پڑھنے سے افضل ہے۔ لہٰذا جس قدر ہو سکے دیکھ کر تلاوت کرے کہ قرآن دیکھنا بھی عبادت ہے اور اس کا چھونا بھی۔
(۷) تلاوت قرآن سراً اور جہراً دونوں طرح درست ہے۔ جسے ریا کا خوف ہو یا کسی کے ذکرو نماز یا نیند میں خلل کا اندیشہ ہو تو اس کے لیے سراً (آہستہ پڑھنا) بہتر ہے۔ اور جو ریاد غیرہ سے مامون ہو اس کے لیے جہراً (زور سے پڑھنا) افضل ہے کہ اس میں ثواب اور فائدے زیادہ ہیں۔ جہر سے طبیعت تلاوت میں خوب لگتی ہے، اکتاہٹ نہیں پیدا ہوگی۔ کان بھی قرآن کی سماعت سے محظوظ اور مثاب ہو جاتا ہے۔ دوسرے سننے والے بھی اجر کے مستحق ہوتے ہیں۔ فکر و تدبر کا زیادہ موقع ملتا ہے،قاری کا دل اور اس کی ہمت بیدار رہتی ہے اور حفظ قرآن میں بھی مدد ملتی ہے۔
مخارج آداب تلاوت قرآن سے ہے:
(۸) قرآن کو جہاں تک ہو سکے اچھی آواز سے پڑھناچاہیے کہ حدیث میں بہ صراحت اس کا حکم ہے۔ اچھی آواز کا معیار محض حسن صوت نہیں، بلکہ مخارج حروف اور صفات کی رعایت اصل ہے۔ بہت سے لوگ بعض سورتوں اور قرآن کی مکمل تلاوت کا خوب اہتمام کرتے ہیں۔ لیکن مخارج کی درستگی پر قطعاً کوئی توجہ نہیں دیتے۔ اس پر نہایت درجہ حیرت ہے۔ جس قدر تلاوت قرآن کی اہمیت و فضیلت ہے۔ اس سے کہیں زیادہ اس کو صحیح پڑھنے کی تاکید کہ بسا اوقات غلط پڑھنے سے کفر لازم آجاتا ہے۔ کبھی معنیٰ میں فساد پیدا ہوتا ہے اور کہیں مہمل ہو جاتا ہے۔ ایسا غلط قرآن پڑھنا باعث ثواب ہونے کے بجاے گناہ کا سبب ہے۔
پورا قرآن صحیح پڑھنے کی پوری کوشش کرنا فرض ہے۔ اور یہ بغیر کسی صحیح خواں استاذ کے عادۃً ممکن نہیں۔ اس لیے کسی صحیح استاذ کو تلاش کر کے اس سے قرآن درست کرائیں۔ شرم سے کام نہ لیں اور اپنے بچوں کو ابتداء ہی سے صحیح خواں استاذ سے قرآن پڑھوائیں۔ یعنی کسی اچھے قاری سے۔ یا درکھیں ماں باپ کی غفلت سے بچے اگر غلط پڑھیں گے تو اس کا وبال ماں باپ پر بھی ہو گا۔
(۹) بہت جلدی جلدی قرآن نہ پڑھے کہ صرف یعلمون تعلمون تو صاف سنائی دے۔ باقی کیا پڑھا معلوم ہی نہ ہو، بلکہ بعض تو صحیح خواں ہوتے ہوئے بھی یالمون تالمون عجلت میں پڑھ دیتے ہیں۔ لہٰذا قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر صفائی سے پڑھا جائے۔ ہاں صحیح خوانی کے ساتھ جس قدر عجلت ہو سکتی ہو کرے، اس پر مواخذہ نہیں۔
قرآن بھول جائے توکیا کہنا چاہیے:
(۱۰) کوئی سورہ یا آیت بھول جائے تو یہ نہ کہے کہ میں فلاں سورہ یا آیت بھول گیا۔ بلکہ یوں کہے ’’مجھے فلاں سورہ یا آیت بھول گئی یا مجھ سے بھلادی گئی‘‘۔
(۱۱) قرآن شریف اعوذ باللہ اور بسم اللہ سے شروع کیا جائے۔ ہر سورہ کے شروع میں صرف بسم اللہ پڑھی جائے سواے سورہ برات کے۔
(۱۲) گرمیوں میں صبح کو قرآن مجید ختم کرنا بہتر ہے اور جاڑوں میں اول شب کو کہ اس میں ثواب زیادہ ہے۔
(۱۳) جب ختم قرآن ہو تو تین بار قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ پڑھنا بہتر ہے اگر چہ تراویح میں ہو۔
(۱۴) مجمع میں سب لوگ اگر زور سے قرآن شریف پڑھیں تو یہ حرام ہے۔ اکثر تیجے و چہلم میں سب لوگ بلند آواز سے پڑھتے ہیں، یہ حرام ہے۔ اگر چند شخص ہوں تو سب آہستہ پڑھیں۔
(۱۵) قرآن مجید سننا خود پڑھنے اور نفل نماز سے بہتر ہے۔
(۱۶) قرآن شریف نہایت باریک قلم سے لکھ کر چھوٹے سائز میں کر دینا مکروہ ہے۔ جیسا کہ آج کل تعویذی قرآن چھپتا ہے اور لوگ تعویذ بناتے ہیں کہ اس میں تحقیر کی صورت پائی جاتی ہے۔ بلکہ بہت مختصر سائز کا حمائل بھی نہ چاہیے۔
(۱۷) مصحف یعنی قرآن کو بوسہ دینا جائز ہے اور یہ صحابہ کرام کے فعل سے ثابت ہے۔ حضرت امیر المؤمنین عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ روزانہ صبح قرآن پاک کو بوسہ دیا کرتے اور کہتے: یہ میرے رب کا عہد اور اس کی کتاب ہے۔ اور حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی مصحف کو بوسہ دیتے اور چہرے سے مس کرتے۔