تلاوت و ختم قرآن(قسط۔۱) Tilawat W Khatm-e-Quran

تلاوت و ختم قرآن

تلاوت و ختم قرآن

تلاوت و ختم قرآن از: مبلغ اسلام مولانا محمد عبد المبین نعمانی قادری مصباحی دام ظلہ

یہ امر مسلم ہے کہ کلام الٰہی کی تلاوت تمام اذکار و اوراد سے افضل ہے۔ لہٰذا مومن کوچاہیے کہ جس قدر ہو سکے دن رات صبح و شام اس کا اہتمام کرے کہ یہ اللہ کی رضا و خوشنودی کا ذریعہ ہے اور نجات کا باعث۔ لیکن یاد رہے کہ صرف تلاوت پر اکتفا نہ کرے۔ بلکہ فہم و تدبیر اور پھر احکام الٰہی کی بجا آوری پر بھی بھر پور توجہ دے کہ قرآن کا مقصد نزول ہدایت ورہنمائی ہے، محض تلاوت مقصد نزول نہیں۔
یہ تو اللہ عز و جل کا کرم خاص ہے کہ اس نے اپنے پاک کلام میں جسمانی امراض سے شفایابی کی برکت بھی رکھی ہے۔ اور محض اس کی تلاوت کو بھی باعث اجر و ثواب قرار دیا ہے۔ یقیناً اس کے کلام کو زبان پر جاری کرنا بھی عظیم فوائد وبرکات اور فضائل و کمالات کا سر چشمہ ہے۔ جس کلام بلاغت نظام کی ظاہری خوبیاں اس قدر ہوں تو اس پر عمل اور غور و فکر کے ثمرات و برکات کا بھلا کون اندازہ لگا سکتا ہے۔

تلاوت و ختم قرآن کی برکات:

یوں تو اس کلام ہدایت نظام کا ہر حرف باعث برکت ہے۔ اور اس کی تلاوت پر ہر حرف کے بدلے دس نیکیوں کا وعدہ ہے۔ لیکن خاص خاص بعض سورتوں کا مقام خصوصیت واہمیت کا حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے مسلمان بھائی بعض مخصوص سورتوں کے ورد پر پابندی کیا کرتے ہیں۔ انہی حضرات کی آسانی کے لیے چند قرآنی سورتوں کے مجموعے شائع کیے جاتے ہیں۔
یہ ’’پنج سورہ رضویہ شریف‘‘ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جس میں آیات اور سورتوں کے تراجم امام اہل سنت مجدد دین وملت سر کار اعلیٰ حضرت قدس سرہ کے ترجمہ قرآن کنز الایمان سے لیے گئے ہیں۔ اسی وجہ سے اس کا نام پنج سورہ رضویہ پڑا۔ اور دیگر کتب وظائف اور احادیث سے انتخاب کر کے فضائل و فوائد اور عملیات قرآنی کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی آخر میں امام اہل سنت قدس سرہ کے ارشاد فرمودہ مجموعہ ’’اوراد الوظیفۃ الکریمہ‘‘ بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ جس سے اس مجموعے کی افادیت اور بڑھ گئی ہے۔

ختم قرآن:

کچھ لوگ روزانہ صرف پنج سورہ سے چند سورتوں کا ورد کرتے ہیں۔ باقی پورے قرآن کو طاق نسیان کی نذر کر دیتے ہیں جب کہ پورے قرآن حکیم کی تلاوت اور اس کے ختم کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔ زیادہ وقت نہ ملے تو صرف نصف پاره یا پاؤپاره ہی روزانہ تلاوت میں رکھیں۔ تو جلد یا بدیر ختم قرآن کی بھی سعادتوں سے بہرہ ور ہو لیا کریں گے۔ کہ ختم قرآن سنت رسول اور سنت صحابہ و طریقہ اسلاف کرام ہے۔ البتہ ختم قرآن کی مدت کتنی ہو اس میں عادتیں مختلف رہی ہیں۔ بعض نے دیر سے فکر و تدبر کے بعد ختم کیا ہے۔ تو بعض اسلاف نے بہت قلیل مدت میں ختم کو عادت بنایا۔ جس کی تفصیل فضائل قرآن سے متعلق کتب میں موجود ہے۔

تلاوت و ختم قرآن احادیث میں:

اس سلسلے میں امر محکم و قول فیصل یہ ہے کہ جس کی جتنی استطاعت و فرصت ہو۔ اور جس قدر قوت تلاوت کا مالک ہو اسی حساب سے وہ ختم کیا کرے۔ حدیث میں آیا ہے:
اقرؤا القُرْآنَ مَا التَفَتْ قُلُوبُكُمْ فَإِذَا اخْتَلَفْتُمْ فَقُوْمُوْ عَنْه (مشکوٰة ص: ۱۹۰، بخاری ومسلم)
جب تک دل لگے اس وقت تک تلاوت قرآن میں مشغول رہو اور جب طبیعت بدل جائے تو اٹھ جاؤ۔
اور ختم قرآن کی فضیلت کے متعلق ارشادر سالت مآب ﷺ ہے:
إِذَا وَافَقَ حَتُمُ الْقُرْآنِ أَوَّلَ اللَّيْلِ صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ حَتَّى يُصْبِحَ وَإِذَا وَافَقَ حَتْمُهُ آخِرَ اللَّيْلِ صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ حَتَّى يُمْسِيْ (الاذكار للنووى، ص: ۱۴۹)
اگر ختم قرآن اول شب میں واقع ہو تو فرشتے تلاوت قرآن کرنے والے پر صبح تک درود بھیجتے ہیں۔ اور جب آخر شب میں ختم قرآن واقع ہو تو شام تک فرشتے درود بھیجتے ہیں۔
اور ایک روایت میں یوں ہے:
مَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ اَيَّةَ سَاعَةٍ كَانَتْ مِنَ النَّهَارِ صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ حَتَّى يُمْسِيْ وَأَيَّةَ سَاعَةٍ كَانَتْ مِنَ اللَّيْلِ صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ حَتَّى يُصْبِحَ (الأذكار للنووى، ايضاً)
جو قرآن دن کے کسی وقت میں ختم کرے تو فرشتے اس پر شام تک درود بھیجتے ہیں۔ اور جو رات کے کسی وقت ختم کرے تو اس پر فرشتے صبح تک درود بھیجتے ہیں۔

ختم قرآن کے دن روزہ:

ختم قرآن کے دن روزہ رکھنا بھی مستحب ہے اور یہ بھی مستحب ہے کہ مجلس میں مسلمان جمع ہوں۔ وہ پڑھنے والے ہوں یا نہ پڑھنے والے ہوں اور ختم میں اول دن کا اور اول شب کا اہتمام بہتر ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا تو یہ طریقہ تھا کہ تلاوت کرنے والے پر آدمی مقرر کر دیتے۔ وہ ختم کا انتظار کرتا۔ پھر جب آپ کو ختم کی خبر دیتا تو آپ اس میں شریک ہوتے اور اس کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے۔
سنن دارمی میں حضرت قتادہ (جو جلیل القدر تابعی اور حضرت انس کے شاگرد ہیں) سے مروی ہے۔ آپ جب قرآن ختم کرتے تو اپنے گھر والوں کو جمع کرتے اور دعا کرتے۔ آج سنی مسلمانوں میں جو ختم قرآن کا اہتمام ہوتا ہے وہ انہی دلائل کی بنیاد پر ہے۔ جو اسے بدعت کہتے ہیں ان کا یہ حکم خود بدعت اور شریعت پر افتراء ہے۔

3 Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *