اسلام میں جہاد کی اہمیت، اس کی تعریف اور قسمیں
اللہ رب العزت نے انسان کو پیدا کرکے اسے عقل وشعور، فکر و آگہی اور ہش و خرد سے نوازا تاکہ وہ اپنے لیے اچھے اور برے کا فیصلہ خود کر سکے۔ اسی طرح انواع و اقسام کی بےبہا نعمتوں سے نوازا تاکہ وہ اپنی زندگی خوش گوار بنا سکے۔ اب ان گراں بہا نعمتوں کے مطابق انسان پر ضروری ہے کہ وہ رب تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور اپنی زندگی دوسروں کے ساتھ مل کر اور دوسروں کو اپنے برابر سمجھتے ہوئے گزارے، لیکن اس قدر آسانیوں اور آسائشوں کے باوجود انسان کبھی قدرت کی ناشکری کرتا ہے، کبھی فطرت سے بغاوت کرتا ہے اور اپنے آپ کو بڑا سمجھ بیٹھتا ہے۔ جہاد ظلم و بغاوت کا خاتمہ کرتا ہے۔
نتیجے میں وہ دوسروں پر ظلم کرتا ہے، ان کا حق مارتا ہے، ان سے اختلاف کرتا ہے اور آگے چل کر ضرب وحرب، قتل وغارت گری اور خوں ریزی پر اتر آتا ہے جس سے معاشرے کا ماحول تار تار ہو جاتا ہے اور انسانی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ معاشرے سے انہی متشددانہ اور ظالمانہ عناصر کے خاتمے، ظلم وبربریت، وحشت و درندگی، ہوسِ اقتدار، حق تلفی اور اسی طرح انسانی زندگی کی تمام اخلاقی ومعاشرتی خرابیوں کا قلع قمع کرکے قیدو بند کی صعوبتوں سے دوچار انسانوں کو نجات دلانے اور سارے انسانوں کو ان کے حقوق دلاکر انھیں ایک خدا کی پرستش کے لیے اکٹھا کرنے کے لیے جو جد وجہد کی جاتی ہے اسی کو اسلام میں جہاد کہا جاتا ہے۔
اسلام میں جہاد:
جہاد کو اسلام میں بہت بڑا مقام حاصل ہے اور وقتِ ضرورت ایک اہم فریضہ ہے جس کی ادائگی اس کی استطاعت رکھنے والوں پر ضروری ہے۔ جہاد صرف جنگ وجدال اور قتل وقتال کا نام نہیں ہے، بلکہ اسلام صرف اسی صورت میں تلوار اٹھانے کی اجازت دیتا ہے جب ظلم و بربریت کی تہوں میں تڑپتی انسانیت کو نجات دلانا مقصود ہو، دہشت گردی کا خاتمہ مقصود ہو، انسانوں کو حق مساوات عطا کرنا مقصود ہو، امن ومان اور عدل و انصاف کا قیام مقصود ہو، جیو اور جینے دو پر عمل کرنا مقصود ہو۔
تعریف جہاد و مجاہدہ:
جہاد ”جہد“ سے ماخوذ ہے، خواہ یہ جیم کے زبر کے ساتھ ”جَہْدٌ“ ہو یا اس کے پیش کے ساتھ ”جُہْدٌ“ ہو۔ اور اس کے معنی میں بھی کافی وسعت ہے۔ چناں چہ ”جَہْدٌ“ کا معنی مشقت، نہایت و غایت اور وسعت و طاقت ہے، فرمان خداوندی ہے:
وَأَقْسَمُوا بِاللہِ جَھْدَ أَيْمانِھِم (سورۃ الانعام: ۶؍۱۰۹)
ترجمہ: اور انھوں نے اللہ کی قسم کھائی اپنے حلف میں پوری کوشش سے۔‘‘
اور ”جُہْدٌ“ کا معنی بھی وسعت و طاقت آتاہے، چناں چہ فرمان خداوندی ہے:
وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُھْدَھُم (سورۃ التوبۃ: ۹؍۷۹)
ترجمہ: وہ جو نہیں پاتے مگر اپنی محنت سے۔‘‘
لغوی و اصطلاحی مفہوم:
لہٰذا جہاد و مجاہدہ کا لغوی مفہوم محنت و کوشش، ضبطِ نفس، عسکری تیاری، دشمن کا دفاع، اس کے خلاف جنگی کارروائی اور اس میں پوری کوشش صرف کرنے کا نام جہاد ہے۔ اس کا اصطلاحی مفہوم ایک مسلمان کا اپنی تمام تر جانی مالی، ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو بروے کار لاتے ہوئے اللہ کی راہ میں نکلنا اور دین کی حفاظت، قیام امن و امان، ظلم و بربریت کے خاتمے اور لوگوں کی تکلیف کو دور کرکے انھیں انصاف دلانے کے اعلیٰ مقاصد کے لیے جد وجہد کرنے کا نام جہاد ہے۔
جہد کی تشریح:
چناں چہ امام راغب اصفہانی (م۔ ۵۰۲ھ) لکھتے ہیں:
الجَھْد والجُھْدُ: الطاقۃ والمشقۃ، وقيل:الجَھْدُ بالفتح: المشقۃ، والجُھْدُ: الوسع. وقيل: الجھد للإنسان، وقال تعالی:
وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُھْدَھُم (سورۃ التوبۃ: ۹؍۷۹)، وقال تعالیٰ:
وَأَقْسَمُوا بِاللہِ جَھْدَ أَيْمانِھِم (سورۃ النور: ۲۴؍۵۳)
أي: حلفوا واجتھدوا في الحلف أن يأتوا بہ علی أبلغ ما في وسعھم. والاجتھاد: أخذ النفس ببذل الطاقۃ وتحمّل المشقۃ، يقال: جَھَدْتُ رأيي وأَجْھَدْتُہ: أتعبتہ بالفكر، والجھادُ والمجاھدة: استفراغ الوسع في مدافعۃ العدو۔(المفردات فی غریب القرآن، کتاب الجیم، ج: ۱، ص: ۲۰۸، دار القلم، دارالشامیۃ، دمشق، بیروت)
ترجمہ:
جَہْدٌ اور جُھْدٌ طاقت ومشقت کے معنی میں ہیں۔ اور کہا گیا ہے کہ جَہْد زبر کے ساتھ مشقت کے معنی میں ہے۔ اور جُہْد کے ساتھ وسعت کے معنی میں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جہد انسان کے لیے خاص ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وہ جو نہیں پاتے مگر اپنی محنت سے۔ اور فرمایا:
’’اور انھوں نے اللہ کی قسم کھائی اپنے حلف میں پوری کوشش سے۔‘‘
یعنی انھوں نے قسم کھائی اور پوری کوشش سے کھائی کہ حتی الوسع اس کو پوری کرنا ہے۔ اور اجتہاد نفس کو طاقت وقوت کے صرف کرنے اور مشقت برداشت کرنے کا خوگر بنانے کا نام ہے۔ کہا جاتا ہے :جَھَدْتُ رأيي وأَجْھَدْتُہ یعنی میں نے اپنی راے مکمل غور وفکر کے بعد قائم کی ہے۔ اور جہاد ومجاہدہ کا معنی دشمن کا دفاع کرتے ہوئے اپنی طاقت وقوت کا بھرپور استعمال کرنا ہے۔
امام جرجانی (۷۴۰ـ۸۱۶ھ) فرماتے ہیں:
الجھاد: ھو الدعاء إلی الدين الحق. (التعریفات، ج: ۱، ص: ۸)
ترجمہ: جہاد دین حق کی طرف بلانے کا نام ہے۔
جہاد کی مختلف صورتیں اور اقسام:
ائمہ و علما نے جہاد کی الگ الگ قسمیں بیان کی ہیں، لیکن ان میں جو نص کے مطابق ملتی ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں:
فرمان خداوندی ہے:
وَّجَاھِدُوۡا بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنۡفُسِکُمْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ذٰلِکُمْ خَیۡرٌ لَّکُمْ اِنۡ کُنۡتُمْ تَعْلَمُوۡنَ (سورۃ التوبۃ: ۹؍۴۱)
ترجمہ: اور اللہ کی راہ میں لڑو اپنے مال اور جان سے یہ تمھارے لیے بہتر ہے اگر جانو۔‘‘
اس آیت کریمہ میں جہاد بالمال اور جہاد بالنفس کا ذکر ہے۔
رسول اکرم ﷺ نے ایک غزوہ سے لوٹنے کے بعد ارشاد فرمایا:
رجعنا من الجھاد اﻷصغر إﻟﯽ الجھاد اﻷکبر (الدر المنثور: ۸۹)
ترجمہ: ہم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف لوٹے۔
جہاد اکبر سے مراد جہاد بالنفس:
اس میں جہاد اصغر سے مراد جہاد بالسیف اور جہاد اکبر سے مراد جہاد بالنفس ہے۔
رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
من رأی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فإن لم یستطع فبلسانہ فإن لم یستطع فبقلبہ وذٰلک أضعف الإیمان (سنن النسائی: ۵۱۲)
اس حدیث میں جہاد بالید، جہاد باللسان اور جہاد بالقلب کا ذکر آیا ہے۔
امام راغب اصفہانی(م۔ ۵۰۲ھ) جہاد کی قسمیں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
والجِھاد ثلاثۃ أضرب: مجاھدة العدو الظاھر. ومجاھدة الشيطان. ومجاھدة النفس. وتدخل ثلاثتھا في قولہ تعالی:
وَجاھِدُوا فِي اللہِ حَقَّ جِھَادِہ
(سورۃ الحج:۲۲؍۷۸)
وَجاھِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللہِ (سورۃ التوبۃ: ۹؍۴۱)
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَھاجَرُوا وَجاھَدُوا بِأَمْوالِھِمْ وَأَنْفُسِھِمْ فِي سَبِيلِ اللہِ(سورۃ الأنفال: ۸؍۷۲)
وقال رسول اللہﷺ: ’’جاھدوا أھواءكم كما تجاھدون أعداءكم‘‘
والمجاھدة تكون باليد واللسان، قال رسول اللہﷺ: ’’جاھدوا الكفار بأيديكم وألسنتكم‘‘
(المفردات فی غریب القرآن، کتاب الجیم، ج: ۱، ص: ۲۰۸، دار القلم، دارالشامیۃ، دمشق، بیروت)
جہاد کی صورتیں:
ترجمہ: جہاد کی تین قسمیں ہیں؛ (۱) ظاہری دشمن کے خلاف جہاد (۲) شیطان کے خلاف جہاد اور (۳) نفس کے خلاف جہاد۔ اور یہ تینوں اقسام اللہ تعالیٰ کے ان ارشادات میں شامل ہیں؛ ’’(۱) اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کا حق ہے (۲)اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو اپنے مال اور جان سے (۳)بیشک جو ایمان لائے اور اللہ کے لیے گھر بار چھوڑے اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے لڑے۔‘‘
اور رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’اپنی خواہشات کے خلاف ایسے ہی جہاد کرو جیسے تم اپنے دشمنوں سے جہاد کرتے ہو۔‘‘
مجاہدہ ہاتھ اور زبان سے ہوتا ہے، رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
کفار سے جہاد کرو ہاتھ اور زبان کے ذریعہ۔
امام اصفہانی نے اس میں تین قسمیں بیان کی ہیں جس میں ظاہری دشمن سے جہاد، جہاد بالسیف ہے، شیطان سے جہاد، جہاد بالقلب ہے اور تیسری قسم جہاد بالنفس ہے۔ اسی طرح اس عبارت میں بیان کردہ حدیث میں جہاد بالید اور جہاد باللسان کا بھی ذکر آیا ہے۔
اس کے علاوہ علماے کرام نے جہاد کی اور بھی قسمیں مثلا، جہاد بالقلم، جہاد بالعلم، جہاد بالعمل، جہاد بالعقل، جہاد بالجسم اور جہاد بالخلق بیان کی ہیں جو آئندہ سطور میں بیان کی جائیں گی۔
جہاد بالنفس (جہاد اکبر):
اس کو جہاد اکبر اس لیے کہا جاتا ہے کہ دوسرے جہادوں کا سامنا تو انسان کو کبھی کبھار کرنا پڑتا ہے، جب حالات اس کے داعی ہوتے ہیں۔ لیکن نفس انسان کے ساتھ ہر آن رہتا ہے اور اسے نفس سے مسلسل اور انتہائی صبر آزما جنگ کرنا پڑتا ہے۔ یہ جنگ نفسانی خواہشات، ہوس اقتدار، تکبر، غرور، انانیت، حرص وطمع، غیبت، چغلی، حسد، کینہ اور انسانی ذہنوں میں اس طرح کی دیگر پنپنے والی خواہشات کے خلاف ہوتی ہے۔
اگر انسان اس میں کامیاب ہو جائے تو دیگر جہادوں میں کامیابی آسان ہے۔ بلکہ یوں کہنا بھی صحیح ہوگا کہ اس میں کامیابی کے بعد ہی دوسرے جہادوں کی طرف قدم بڑھایا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ اگر نفس سرکش رہ جائے اور اس کی من مانی چلتی رہے تو وہ دوسرے کاموں کی راہ میں رکاوٹ بنےگی جن میں ایک جہاد بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن عظیم میں اس کو قابو میں رکھنے کی بہت تاکید فرمائی ہے۔
قرآن میں جہاد بالنفس:
چناں چہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَمَا اُبَرِّیُٔ نَفْسِیۡ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوۡٓءِ اِلَّامَا رَحِمَ رَبِّیۡ اِنَّ رَبِّیۡ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (سورۃ یوسف: ۱۲؍۵۳)
ترجمہ: اور میں اپنے نفس کو بے قصور نہیں بتاتا بیشک نفس تو بُرائی کا بڑا حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے بیشک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
اور فرمایا:
اَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـھَہٗ ھَوٰہُ (سورۃ الفرقان: ۲۵؍۴۳)
ترجمہ: کیا تم نے اسے دیکھا جس نے اپنے جی کی خواہش کو اپنا خدا بنالیا۔‘‘
اور فرمایا:
قَدْ اَفْلَحَ مَنۡ زَکّٰھَا وَ قَدْ خَابَ مَنۡ دَسّٰھَا (سورۃ الشمس: ۹۱؍۹،۱۰)
ترجمہ: بے شک مراد کو پہنچا جس نے اسے ستھرا کیا اور نامراد ہوا جس نے اسے معصیت میں چھپایا۔‘‘
اور فرمایا:
قَدْ اَفْلَحَ مَنۡ تَزَکّٰی وَ ذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلیّٰ (سورۃ الأعلیٰ: ۸۷؍۱۴،۱۵)
ترجمہ: بے شک مراد کو پہنچا جو ستھرا ہوا اور اپنے رب کا نام لے کر نماز پڑھی۔‘‘
اور فرمایا:
وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاۡوٰی (سورۃ النازعات: ۷۹؍۴۰،۴۱)
ترجمہ: اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا تو بے شک جنّت ہی ٹھکانا ہے۔‘‘
جہاد بالنفس حدیث میں:
رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لیس الشدید بالصُرْعَۃ إنما الشدید الذی من یمتلک نفسہ عند الغضب (صحیح مسلم: ۲۶۰۹)
ترجمہ: پہلوان وہ نہیں جو کشتی میں غالب آجائے، پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے اوپر قابو رکھے۔‘‘
اور فرمایا:
المجاھد من جاھد نفسہ (سنن الترمذی: ۱۶۲۱)
ترجمہ: مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے خلاف جہاد کرتاہے۔‘‘
اور فرمایا:
أفضل الجھاد أن تجاھد نفسک وھواک فی ذات اللہ (کنز العمال: ۴؍۴۳۱)
ترجمہ: افضل جہاد یہ ہے کہ تو اپنے نفس اور خواہش سے اللہ کے بارے میں جہاد کرے۔‘‘
ان تمام آیات کریمہ اور احادیث مبارکہ سے واضح ہو جاتا ہے کہ جہاد بالنفس سب سے اہم اور دشوار گزار ہے۔ اگر کوئی اس میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ اس کے علاوہ تمام قسم کے جہاد میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ نفس ہی وہ چیز ہے جو ہر قدم پر نیک کام کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے جہاد اکبر کہا گیا ہے۔
جہاد بالمال:
مال ایسی چیز ہے جس کی جہاد بالمال کےعلاوہ دوسرے جہادوں میں بھی ضرورت پڑتی ہے۔ چناں چہ جہاد بالسیف میں اسلحے اور دیگر سامان خوراک وسواری کے لیے مال ہی کی ضرورت پڑتی ہے۔ جہاد بالعلم میں کتابوں اور وسائل ابلاغ کی فراہمی اور سفر کے اخراجات کے لیے مال کی ضرورت پڑتی ہے۔ مال کی اہمیت اور بھی زیادہ اس لیے ہے کہ یہ ایسی چیز ہے جو انسان کو پیاری ہوتی ہے اور وہ جلدی اس کے خرچ پر راضی نہیں ہوتا۔ بلکہ جتنا زیادہ ہوتا ہے اتنا ہی ذخیرہ اندوزی کی سوچتا ہے۔ لہٰذا اگر اسے خرچ کرنے کی توفیق مل جائے تو وہ کامیاب ہے ورنہ وہی مال اس کے لیے وبال جان ہو جاتا ہے۔
قرآن میں جہاد بالمال کا ذکر:
چناں چہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَّ تُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا (سورۃ الفجر: ۸۹؍۲۰)
ترجمہ: اور مال کی نہایت محبّت رکھتے ہو۔‘‘
اور فرمایا:
اِنَّمَا اَمْوٰلُکُمْ وَ اَوْلٰدُکُمْ فِتْنَۃٌ وَ اللہُ عِنۡدَہٗ اَجْرٌ عَظِیۡمٌ (سورۃ التغابن: ۶۴؍۱۵)
ترجمہ: تمھارے مال اور تمھارے بچّے جانچ ہی ہیں اور اللہ کے پاس بڑا ثواب ہے۔‘‘
اور فرمایا:
یٰاَیُّھَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُلْھِکُمْ اَمْوٰلُکُمْ وَ لَا اَوْلاَدُکُمْ عَنۡ ذِکْرِ اللہِ وَ مَنۡ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوۡنَ وَ اَنۡفِقُوۡا مِنۡ مَّا رَزَقْنٰکُمۡ مِّنۡ قَبْلِ اَنۡ یَّاۡتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوۡلَ رَبِّ لَوْ لَا اَخَّرْتَنِیۡ اِلیٰ اَجَلٍ قَرِیۡبٍ فَاَصَّدَّقَ وَ اَکُنۡ مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ وَ لَنۡ یُّؤَخِّرَ اللہُ نَفْسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُھَا وَ اللہُ خَبِیۡرٌ بِمَا تَعْمَلُوۡنَ (سورۃ المنٰفقون: ۶۳؍۹ـ۱۱)
ترجمہ: اے ایمان والو تمھارے مال نہ تمھاری اولاد کوئی چیز تمھیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کرے اور جو ایسا کرے تو وہی لوگ نقصان میں ہیں۔ اور ہمارے دیے میں سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں کسی کو موت آئے۔ پھر کہنے لگے اے میرے رب تو نے مجھے تھوڑی مدت تک کیوں مہلت نہ دی کہ میں صدقہ دیتا اور نیکوں میں ہوتا۔ اور ہرگز اللہ کسی جان کو مہلت نہ دے گا جب اس کا وعدہ آجائے اور اللہ کو تمھارے کاموں کی خبر ہے۔‘‘
اور فرمایا:
وَ سَیُجَنَّبُھَا الْاَتْقَی الَّذِیۡ یُؤْتِیۡ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی (سورۃ اللیل: ۹۲؍۱۷،۱۸)
ترجمہ: اور بہت اس سے دور رکھا جائے گا جو سب سے بڑا پرہیزگار جو اپنا مال دیتا ہے کہ ستھرا ہو۔‘‘
جہاد کی فضیلت اور بخل کی مذمت:
اور فرمایا:
فَاَمَّا مَنۡ اَعْطیٰ وَ اتَّقیٰ وَ صَدَّقَ بِالْحُسْنیٰ فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْریٰ وَ اَمَّا مَنۡ بَخِلَ وَ اسْتَغْنیٰ وَ کَذَّبَ بِالْحُسْنیٰ فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْعُسْریٰ (سورۃ اللیل: ۹۲؍۵ـ۱۰)
ترجمہ: تو وہ جس نے دیا اور پرہیزگاری کی اور سب سے اچھی کو سچ مانا تو بہت جلد ہم اسے آسانی مہیا کردیں گے اور وہ جس نے بُخل کیا۔ اور بے پرواہ بنا اور سب سے اچھی کو جھٹلایا تو بہت جلد ہم اسے دشواری مہیاکردیں گے۔‘‘
اور فرمایا:
وَ اَعِدُّوۡا لَھُمۡ مَّا اسْتَطَعْتُمۡ مِّنۡ قُوَّۃٍ وَّمِنۡ رِّبَاطِ الْخَیۡلِ تُرْھِبُوۡنَ بِہٖ عَدُوَّ اللہِ وَعَدُوَّکُمْ وَ اٰخَرِیۡنَ مِنۡ دُوۡنِھِمْ لَاتَعْلَمُوۡنَھُمۡ اَللہُ یَعْلَمُھُمْ وَمَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ یُوَفَّ اِلَیۡکُمْ وَ اَنۡتُمْ لَاتُظْلَمُوۡنَ (سورۃ الانفال: ۸؍۶۰)
ترجمہ: اور ان کے لیے تیار رکھو جو قوّت تمھیں بن پڑے اور جتنے گھوڑے باندھ سکو کہ ان سے ان کے دلوں میں دھاک بٹھاؤ جو اللہ کے دشمن اور تمھارے دشمن ہیں اور ان کے سوا کچھ اوروں کے دلوں میں جنھیں تم نہیں جانتے اللہ انھیں جانتا ہے۔ اور اللہ کی راہ میں جو کچھ خرچ کرو گے تمھیں پورا دیا جائے گا اور کسی طرح گھاٹے میں نہ رہو گے۔
اور فرمایا:
وَمَا تُنۡفِقُوۡنَ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْہِ اللہِ وَمَا تُنۡفِقُوۡا مِنْ خَیۡرٍ یُّوَفَّ اِلَیۡکُمْ وَاَنۡتُمْ لَا تُظْلَمُوۡنَ (سورۃ البقرۃ: ۲؍۲۷۲)
ترجمہ: اور تمھیں خرچ کرنا مناسب نہیں مگر اللہ کی مرضی چاہنے کے لیے۔ اور جو مال دو تمھیں پورا ملے گا اور نقصان نہ دیے جاؤ گے۔
کم اور زیادہ سب پر اجر ہے:
اور فرمایا:
وَلَایُنۡفِقُوۡنَ نَفَقَۃً صَغِیۡرَۃً وَّلَاکَبِیۡرَۃً وَّلَا یَقْطَعُوۡنَ وَادِیًا اِلَّا کُتِبَ لَھُمْ لِیَجْزِیَھُمُ اللہُ اَحْسَنَ مَا کَانُوۡا یَعْمَلُوۡنَ (سورۃ التوبۃ: ۹؍۱۲۱)
ترجمہ:اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں چھوٹا یا بڑا اور جو نالا طے کرتے ہیں۔ سب ان کے لیے لکھا جاتا ہے تاکہ اللہ ان کے سب سے بہتر کاموں کا انھیں صلہ دے۔‘‘
اور فرمایا:
وَ اَنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَلَا تُلْقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ وَاَحْسِنُوۡا اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیۡنَ (سورۃ البقرۃ: ۲؍۱۹۵)
ترجمہ: اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو اور بھلائی والے ہو جاؤ۔ بیشک بھلائی والے اللہ کے محبوب ہیں۔‘‘
اور فرمایا:
یٰاَیُّھَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا اَنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقْنٰکُمۡ (سورۃ البقرۃ: ۲؍۲۵۴)
ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کی راہ میں ہمارے دیے میں سے خرچ کرو۔
اور فرمایا:
یٰاَیُّھَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا اَنۡفِقُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّا اَخْرَجْنَا لَکُمۡ مِّنَ الۡاَرْضِ (سورۃ البقرۃ: ۲؍۲۶۷)
ترجمہ: اے ایمان والو اپنی پاک کمائیوں میں سے کچھ دو اور اس میں سے جو ہم نے تمھارے لیے زمین سے نکالا۔
جہاد بالمال کی فضیلت:
اور فرمایا:
مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمْوالَھُمْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ وَاللہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ۔ اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمْوٰلَھُمْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوۡنَ مَا اَنۡفَقُوۡا مَنًّا وَّلَا اَذًی لَّھُمْ اَجْرُھُمْ عِنۡدَ رَبِّھِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیۡھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوۡنَ (سورۃ البقرۃ: ۲؍۲۶۱،۲۶۲)
ترجمہ: ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانہ کی طرح۔ جس نے اُگائیں سات بالیں ہر بال میں سو دانے۔ اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیے چاہے۔ اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔ وہ جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ پھر د یے پیچھے نہ احسان رکھیں نہ تکلیف دیں۔ ان کا نیگ ان کے رب کے پاس ہے اور انھیں نہ کچھ اندیشہ ہو نہ کچھ غم۔‘‘
اور فرمایا:
وَمَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمْوَالَھُمُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللہِ وَتَثْبِیۡتًا مِّنْ اَنۡفُسِھِمْ کَمَثَلِ جَنَّۃٍ بِرَبْوَۃٍ اَصَابَھَا وَابِلٌ فَاٰتَتْ اُکُلَھَا ضِعْفَیۡنِ فَاِنۡ لَّمْ یُصِبْھَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ (سورۃ البقرۃ: ۲؍۲۶۵)
ترجمہ:اور ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی رضا چاہنے میں خرچ کرتے ہیں اور اپنے دل جمانے کو۔ اس باغ کی سی ہے جو بھوڑ (ریگستان) پر ہو اس پر زور کا پانی پڑا تو دونے میوے لایا۔ پھر اگر زور کا مینہ اسے نہ پہنچے تو اوس کافی ہے اور اللہ تمھارے کام دیکھ رہا ہے۔‘‘
صحابہ کرام کا جہاد بالمال:
رسول اکرم ﷺ کی زندگی میں اس طرح کے واقعات موجود ہیں کہ راہ خدا میں خرچ کرنے کی جب ضرورت پڑی صحابۂ کرام نے اپنے مال لٹا دیے۔ چناں چہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا سارا مال رسول اکرمﷺ کے قدموں میں لاکر انڈیل دیا۔ رسول اکرمﷺ نے اہل وعیال کے بارے میں پوچھا تو عرض کی کہ ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول کافی ہیں۔ رسول اکرمﷺ نے آپ کے بارے میں فرمایا:
مَا نَفَعَنِي مَالُ أَحَدٍ مَا نَفَعَنِي مَالُ أَبِي بَكْرٍ (سنن الترمذی: ۳۶۶۱)
ترجمہ: مجھے کبھی کسی کے مال سے اتنا فائدہ نہیں ہوا جتنا ابو بکر کے مال سے ہوا۔‘‘
رسول اکرمﷺ غزوہ تبوک کے لیے صحابہ کو مال جمع کرنے کی ترغیب دے رہے تھے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تین سو اونٹ مع ساز وسامان دینے کا اعلان کیا۔ اس وقت رسول اکرمﷺ نے منبر سے اترتے ہوئے دو مرتبہ ارشاد فرمایا:
ما علیٰ عثمان ما عمل بعد ھذہ (سنن الترمذی: ۳۷۰۰)
ترجمہ: عثمان اس کے بعد جو بھی کریں اس پر کوئی حرج نہیں۔‘‘
جہاد بالمال کی ترغیب:
اور رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:
إتقوا النار ولو بشق تمرۃ (صحیح البخاری: ۱۴۱۷)
ترجمہ: جہنم کی آگ سے بچو (صدقہ کرکے) اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے سے ہو۔‘‘
ان تمام آیات کریمہ اور احادیث مبارکہ سے واضح ہو جاتا ہے کہ جہاد بالمال کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے۔ کیوں کہ اس چیز سے انسان کو غیر معمولی محبت ہوتی اور اس کے خرچ کرنے کی ہر کوئی ہمت نہیں کرتا۔ بلکہ بسا اوقات تو انسان اپنی جان پر بھی مال کو ترجیح دے ڈالتا ہے۔ لہٰذا پتا چلا کہ جہاد بالمال کو بہت ہی اہم مقام حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں جگہ جگہ جہاد النفس اور جہاد بالمال کا ذکر آیا ہے۔
وہ آیات جن میں جہاد بالنفس اور جہاد بالمال دونوں کی فضیلت آئی ہے:
فَضَّلَ اللہُ الْمُجٰھِدِیۡنَ بِاَمْوٰلِھِمْ وَاَنۡفُسِھِمْ عَلَی الْقٰعِدِیۡنَ دَرَجَۃً وَکُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰی وَفَضَّلَ اللہُ الْمُجٰھِدِیۡنَ عَلَی الْقٰعِدِیۡنَ اَجْرًا عَظِیۡمًا (سورۃ النساء: ۴؍۹۵)
ترجمہ: اللہ نے اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرنے والوں کا درجہ بیٹھنے والوں سے بڑا کیا۔ اور اللہ نے سب سے بھلائی کا وعدہ فرمایا۔ اور اللہ نے جہاد والوں کو بیٹھنے والوں پر بڑے ثواب سے فضیلت دی ہے۔‘‘
دوسری آیت:
اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَھَاجَرُوۡا وَ جٰھَدُوۡا بِاَمْوٰلِھِمْ وَاَنۡفُسِھِمْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَالَّذِیۡنَ اٰوَوۡا وَّنَصَرُوۡا اُولٰئِکَ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ (سورۃ الا.نفال: ۸؍۷۲)
ترجمہ: بیشک جو ایمان لائے اور اللہ کے لیے گھر بار چھوڑے۔ اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے لڑے۔ اور وہ جنھوں نے جگہ دی اور مدد کی وہ ایک دوسرے کے وارث ہیں۔‘‘
تیسری آیت:
لٰکِنِ الرَّسُوۡلُ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ جٰھَدُوۡا بِاَمْوٰلِھِمْ وَاَنۡفُسِھِمْ وَاُولٰئِکَ لَھُمُ الْخَیۡرٰتُ وَاُولٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوۡنَ (سورۃ التوبۃ: ۹؍۸۸)
ترجمہ: لیکن رسول اور جو ان کے ساتھ ایمان لائے انھوں نے اپنے مالوں جانوں سے جہاد کیا۔ اور انھی کے لیے بھلائیاں ہیں اور یہی مراد کو پہنچے۔‘‘
چوتھی آیت:
لَا یَسْتَاْذِنُکَ الَّذِیۡنَ یُؤْمِنُوۡنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الۡاٰخِرِ اَنۡ یُّجٰھِدُوۡا بِاَمْوٰلِھِمْ وَ اَنۡفُسِھِمْ وَاللہُ عَلِیۡمٌ بِالْمُتَّقِیۡنَ (سورۃ التوبۃ: ۹؍۴۴)
ترجمہ: اور وہ جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں تم سے چھٹی نہ مانگیں گے اس سے کہ اپنے مال اور جان سے جہاد کریں اور اللہ خوب جانتا ہے پرہیزگاروں کو۔‘‘
پانچویں آیت:
فَرِحَ الْمُخَلَّفُوۡنَ بِمَقْعَدِھِمْ خِلٰفَ رَسُوۡلِ اللہِ وَکَرِھُوۡا اَنۡ یُّجٰھِدُوۡا بِاَمْوٰلِھِمْ وَاَنۡفُسِھِمْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَقَالُوۡا لَاتَنۡفِرُوۡا فِی الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَھَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا لَوْکَانُوۡا یَفْقَھُوۡنَ (سورۃ التوبۃ: ۹؍۸۱)
ترجمہ: پیچھے رہ جانے والے اس پر خوش ہوئے کہ وہ رسول کے پیچھے بیٹھ رہے۔ اور انھیں گوارا نہ ہوا کہ اپنے مال اور جان سے اللہ کی راہ میں لڑیں اور بولے اس گرمی میں نہ نکلو۔ تم فرماؤ جہنم کی آ گ سب سے سخت گرم ہے۔ کسی طرح انھیں سمجھ ہوتی۔
ان آیتوں میں جہاد بالمال اور جہاد بالنفس کا ایک ساتھ ذکر اور فضیلت آئی ہے۔ ساتھ ہی اس کا خلاف کرنے والوں کی وعید آئی ہے۔ اس سے جہاد کی ان دونوں قسموں کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
محمد دلشاد احمد مصباحی