شہد کی مکھی اللہ کی انوکھی مخلوق
عربی میں شہد کی مکھی کو ’’نحل‘‘ کہا جاتا ہے اور ہندی میں ’’مدھومکھی‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ خدا کی طرف سے انسانوں کے لیے ایک عطیہ ہے جس میں گوں ناگوں فوائد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس مکھی کو شہد بنانے اور اس کی تمام ضروریات کا طریقہ سمجھا دیا ہے۔ اور اس نے ساری باتیں اپنے حافظہ خانہ میں محفوظ کرلی ہیں۔ اس کو پتہ ہے کہ مجھے بارش کی جگہوں پر رہنا ہے بے آب و گیاہ میدان میں نہیں ۔ لعاب سے عمدہ قسم کا مشروب (شہد) تیار کرتی ہے۔
اس میں بڑی عبرت ہے:
قزوینی کا بیان ہے کہ عید کے دن کو رحمت کا دن کہنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اسی دن اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کو شہد بنانے کا علم سکھایا۔ لہذا اللہ کے کلام کے مطابق شہد کی مکھی میں بڑی عبرت ہے۔ اور یہ ایسا جانور ہے جو نہایت ہوشیار، زیرک اور بہادر ہے۔ انجام سےباخبر اور سال کے موسموں سے اچھی طرح واقف ہے۔ بارش کے اوقات کا علم رکھتا ہے۔ اپنے کھانے پینے کے لیے انتظام کرنا اسے خود معلوم ہے۔ اپنے بڑے کی بات مانتا ہے اور اپنے امیر اور قائد کی فرمانبرداری کرتا ہے۔ نرالا کاریگر اور ان کی طبیعت کا مالک ہے۔
شہد کی مکھی کی نو قسمیں ہیں:
ارسطو کا کہنا ہے کہ شہد کی مکھی کی نو قسمیں ہیں۔ جن میں سے چھ قسمیں ایسی ہیں جن میں ایک دوسرے کا باہم رابطہ ہوتا ہے۔ اور ایک جگہ اکٹھی بھی ہو جاتی ہیں۔ ارسطو ہی کا یہ بھی کہنا ہے کہ شہد کی مکھی کی غذا عمدہ پھل اور میٹھی رطوبت ہے۔ جو پھولوں اور پتیوں سے ملتی ہے۔ یہ ان سب کو اکٹھا کر کے شہد تیار کرتی ہے اور اپنا چھتہ بھی بناتی ہے۔ مگر اس کے لیے اس کو چکنی رطوبت الگ سے جمع کرنی پڑتی ہے جس کو موم کہتے ہیں۔ پہلے یہ موم کی رطوبت اپنی سونڈ سے چوس کر نکالتی ہے۔ اور اسے اپنی ٹانگوں کے موٹے حصے (ران) پر جمع کرتی ہے۔ پھر اسے ران سے کسی طرح اپنی پیٹھ پر لادتی ہے۔ اسی طرح وہ اپنے کام میں مصروف رہتی ہے۔
قرآن کریم میں شہد کی مکھی کا ذکر:
اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ پھولوں سے غذا حاصل کرتی ہے۔ جو اس کے پیٹ میں جا کر شہد سے تبدیل ہو جاتی ہے۔ پھر اپنے منہ سے اس کو نکالتی رہتی ہے یہاں تک کہ اس کے پاس شہد کا خزانہ ا کٹھا ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالىٰ فرماتا ہے:
ثُمَّ كُلِیْ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ فَاسْلُكِیْ سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا یَخْرُ جُ مِنْۢ بُطُوْنِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ فِیْهِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ
پھر ہر قسم کے پھل میں سے کھا اور اپنے رب کی راہیں چل کہ تیرے لیے نرم و آسان ہیں۔ اس کے پیٹ سے ایک پینے کی چیز رنگ برنگ نکلتی ہے جس میں لوگوں کی تندرستی ہے۔ بےشک اس میں نشانی ہے دھیان کرنے والوں کو۔ (النحل: ۶۹)
آیت کریمہ میں ’’ثمرات‘‘ سے مراد بعض پھل ہیں۔ شہد کے رنگ کا اختلاف غذا اور شہد کی مکھی، دونوں کی وجہ سے ہوتا ہے اور کبھی غذا کے فرق سے ذائقہ بھی بدل جاتا ہے۔
حصول رزق کا طریقہ:
اپنی روزی حاصل کرنے کا انتظام اس طرح کرتی ہے کہ جب کہیں صاف ستھری جگہ اسے مل جاتی ہے۔ تو سب سے پہلے وہاں چھتہ کا وہ حصہ بناتی ہے جس میں شہد جمع ہوتا ہے۔ پھر رانی مکھی کے لیے رہنے کا گھر تعمیر ہوتا ہے اور اس کے بعد نرمکھیوں کے لیے جگہ بنائی جاتی ہے۔ جو روزی کمانے میں حصہ نہیں لیتے۔ یہ مادہ مکھیوں سے چھوٹے ہوتے ہیں۔ مادہ مکھیاں چھتہ کے خانوں میں شہد جمع کرتی ہیں۔
سب کی سب ایک ساتھ اُڑ کر فضا میں بکھر جاتی ہیں۔ اس کے بعد شہد لے کر چھتہ میں واپس آجاتی ہیں۔ نرمکھی پہلے چھتہ بناتی ہیں پھر اس میں تخم ریزی کرتی ہیں۔ تخم ریزی کے بعد اس طرح بیٹھی رہتی ہیں کہ جس طرح پرندے انڈے سیتے ہیں۔ اور اس عمل سے اس بیج سے ایک سفید کیڑا سا نکل آتا ہے۔ اس کی نشو ونما ہوتی رہتی ہے۔ خود سے کھانے لگتا ہے اور چند دن میں اُڑنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ یہ مکھیاں مختلف قسم کے پھولوں سے نہیں بلکہ صرف ایک ہی قسم کے پھولوں کا رس نکالتی ہیں۔
جس کے اندر کوئی خرابی ہو اسے بھگا دیتی یا مار دیتی ہے:
شہد کی مکھی کی ایک عادت فطری یہ ہے کہ جب کسی مکھی کے اندر کوئی خرابی دیکھتی ہیں۔ تو اسے بالکل اپنے چھتہ سے باہر بھگا دیتی ہیں یا پھر اس کو جان سے مار ڈالتی ہیں۔ اکثر تو چھتہ سے باہرہی اس کا خاتمہ کر دیتی ہیں۔ اس کام کے لیے ان کے یہاں دربان بھی مقرر ہوتے ہیں۔
رانی مکھی اکیلے کہیں نہیں جاتی بلکہ اس کے ساتھ سب لشکر کی طرح ایک ساتھ چلتی ہیں۔ اگر وہ اڑ نہ سکے تو دیگر مکھیاں اسے اپنے پیچھے پر پر بٹھا بٹھا کر اڑا کر لے جاتی ہیں۔ اس رانی مکھی میں ایک خاص بات یہ ہوتی ہے کہ اس کے پاس ڈنک نہیں ہوتا جس سے کسی کو گزند پہنچا سکے۔ سب سے عمدہ رانی مکھی وہ ہوتی ہے جس کا رنگ سرخ مائل بہ زردی ہو۔ اور سب سے بیکار وہ ہوتی ہے جس کی سرخی میں سیاہی ملی ہو۔
شہد کی مکھی کا تقسیم کار:
سب اکٹھی جمع ہو کر تقسیم کار کر لیتی ہیں کچھ تو شہد بنانے میں منہمک ہوتی ہیں۔ اور کچھ کا کام موم بنانا اور اس سے چھتہ تعمیر کرنا ہوتا ہے۔ اور کچھ مکھیاں صرف پانی لانے پر مامور ہوتی ہیں اور اس کا گھر نہایت عجیب و غریب چیز ہے۔ شکل مسدس پر اس کی تعمیر ہوتی ہے جس میں کوئی ٹیڑھا پن نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس نے انجینئر نگ سے اس شکل میں اپنا گھر بنایا ہو۔ پھر اس گھر کے ہر خانے ایسے برابر مسدس دائرے ہوتے ہیں۔ جس میں با ہم کوئی فرق نہیں ہوتا۔
اسی وجہ سے ایک دوسرے سے بالکل ایسے ملے ہوتے ہیں۔ گویا سب دائرے مل کر ایک ہی شکل ہوں۔ اور سوائے مسدس کے تین سے دس تک کا کوئی بھی دائر ہ ایسا نہیں بن سکتا کہ ایک دوسرے کے درمیان کشادگی نہ ہو۔ کیوں کہ مسدس کے ہم شکل چھوٹے چھوٹے دائروں کو ملا کر اس نے ایک ہی ڈھانچہ بنا دیا ہے۔ مزید تعجب خیز بات یہ ہے کہ اس تعمیر میں اس نے کوئی پیمانہ، آلہ یا کوئی پر کار استعمال نہیں کیا ہے۔ بلکہ یہ سب قدرت کی اس تربیت کا کرشمہ ہے جس میں خبیر و بصیر پروردگار نے اس کو صنعت کاری کا یہ طریقہ سکھایا ہے۔ اور اسے اس فن میں اشارات دیے ہیں۔
اللہ کا شہد کی مکھی کو الہام:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ اَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِشُوْنَ
اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو الہام کیا کہ پہاڑوں میں گھر بنا اور درختوں میں اور چھتوں میں۔ (النحل: ۶۸)
ذرا غور کریں کہ کس طرح شہد کی مکھی اپنے رب کے حکم کی فرماں بردار ہے۔ اور کس طرح عمدگی سے حکم الٰہی بجالاتی ہے۔ کس طرح ان تینوں جگہوں میں اپنا چھتہ بناتی ہے۔ آپ ان جگہوں کے علاوہ کسی اور جگہ اس کو چھتہ بناتے نہیں دیکھ سکتے۔ ذرا غور کریں! کس طرح حکم خداوندی کے مطابق سب سے زیادہ پہاڑوں میں۔ پھر درختوں میں اور پھر مکانات اور آبادی میں اپنا چھتہ لگاتی ہیں۔ قرآن میں پہاڑوں میں بنانے کا حکم پہلے ہے۔
لہذا سب سے زیادہ وہاں چھتہ لگاتی ہے۔ اور پھر بالترتیب درختوں اور مکانوں میں کم لگاتی ہے کیوں کہ حکم ربانی کی ترتیب یہی ہے۔ نیز امتثالِ امر کا یہ حال ہے کہ سب سے پہلے اس نے چھتہ لگایا جیسا کہ حکم تھا۔ جب چھتہ بن کر تیار ہوا تو اپنے گھر سے نکل کر تلاش معاش میں ہمہ تن مصروف ہو گئی۔ کھا پی کر درختوں کے پھولوں اور پھلوں سے رس نکال کر اپنے گھر میں ذخیرہ کرنا شروع کر دیا۔ اور دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ کس طرح اس نے شہد اور موم بنایا جس میں روشنی اور شفا کی صلاحیت موجود ہے۔ ( موم میں روشنی اور شہد میں شفا ہے)
پھولوں سے رس نکالتی ہے اور گندگی سے بچتی ہے:
پھر اگر کوئی صاحب بصیرت اس کے احوال میں غور کرے۔ اور دل و دماغ کو نفسانی خواہشات سے یکسو کر کے تدبر کرے۔ تو یقیناً اسے تعجب ہوگا کہ کس طرح وہ پھولوں اور شگوفوں سے رس چوستی ہے۔ گندگی سے اور بد بودار چیزوں سے کس طرح بچتی ہے اور اپنے بڑے کی ( جوان سب کا امیر ہوتا ہے ) اطاعت کرتی ہے۔ پھر امیر کو بھی خداوند قدوس نے ان کے درمیان عدل و انصاف کرنے پر قدرت دی۔ یہاں تک کہ چھتہ میں گندگی لانے والی مکھیوں کو دروازہ پر ہی قتل کر دیتا ہے۔ دشمنوں سے دشمنی دوستوں سے دوستی بھی ان کی فطرت میں داخل ہے۔
شہد کی مکھی کا چھتہ موم کی طرح بنی ہوئی حویلی ہے۔ اور کس طرح اس نے تمام شکلوں میں سے شکل مسدس کو منتخب کیا ہے۔ گول چوکور اور مخمس شکل کو نہیں لیا بلکہ شکل مسدس میں ایسی بات موجود تھی۔ جہاں تک کسی انجینئر کا ذہن بھی نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اور وہ یہ ہے کہ سب سے کشادہ اور وسیع گول شکل بنے یا جو اس کے قریب قریب ہو۔ شکل مربع میں بے کار کونے بچ جاتے ہیں کیوں کہ مکھی کی شکل گول اور لمبی ہے۔ شکل مربع کو اس نے اس وجہ سے چھوڑ دیا تا کہ جگہ بیکار نہ پڑی رہے۔ اور گول بنانے کی صورت میں خانوں سے باہر بہت سی جگہ بیکار ہو جاتی۔
گول شکل چھوڑنے کی وجہ:
کیوں کہ گول شکلیں اگر ایک ساتھ ملائی جائیں تو باہم مل کر ایک نہ ہو سکیں گی۔ بلکہ درمیان میں کچھ جگہ خالی ضرور بچ جائے گی۔ یہ خاصیت صرف شکل مسدس میں موجود ہے کہ اگر کئی ایک کو ایک میں ملادیں تو درمیان میں بالکل کوئی جگہ نہیں بچے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کس طرح سے اس ذرا سے جانور کے ساتھ لطف و مہربانی کا معاملہ فرمایا ہے۔ اور کس طرح اس کی زندگی کی ضرورت مہیا کر دی ہیں تا کہ خوشگوار طریقہ پر اپنی زندگی گزار سکے۔
اپنے چھتہ میں ایک دوسرے سے لڑنا۔ یہاں تک کہ جان سے مار ڈالنا اور ایک دوسرے کے خوف سے اس سے دور رہنا بھی شہد کی مکھی کی فطرت میں داخل ہے۔ چناں چہ اپنے چھتہ کے پاس اگر دوسرے چھتہ کی مکھی آجائے تو اس کو ڈنک مارتی ہیں۔ کبھی کبھی تو وہ مربھی جاتی ہے جس کو ڈنک لگا ہے۔ اس کے مزاج میں صفائی ستھرائی بھی بہت ہے۔ چنانچہ چھتہ کے اندر اگر کوئی مکھی مر جائے تو اندر کی مکھیاں اسے با ہر نکال دیتی ہیں۔ نیز چھتہ میں سے اپنا پا خانہ بھی برابر صاف کرتی رہتی ہیں تا کہ اس سے بدبو نہ پھیلے۔
موسم ربیع کا تیار کیا ہوا شہد اچھا ہوتا ہے:
مکھیاں ربیع اور خریف دونوں موسموں میں اپنا عمل جاری رکھتی ہیں۔ لیکن موسم ربیع کا تیار کیا ہوا شہد اچھا ہوتا ہے۔ چھوٹی مکھیاں بڑی مکھیوں سے زیادہ محنت سے کام کرتی ہیں۔ صاف اور عمدہ ہی پانی پیتی ہیں چاہے جہاں سے ملے اور بقدر ضرورت ہی شہد کھاتی ہیں اور جب چھتہ میں شہد کم ہونے لگتی ہے۔ تو اس کے ختم ہونے پر اپنی جان کے خطرہ سے اس میں پانی ملا دیتی ہیں۔ چھتہ میں جب شہد ختم ہو جائے تو مکھیاں خود اپنا چھتہ اجاڑ دیتی ہیں۔ اگر وہاں کوئی نریا رانی مکھی اس وقت بھی بیٹھی رہے تو کبھی کبھی انہیں بھی مار ڈالتی ہیں۔
یونان کے ایک حکیم نے اپنے شاگردوں سے کہا تھا۔ تم لوگ چھتہ میں رہنے والی شہد کی مکھیوں کی طرح بن جاؤ۔ شاگردوں نے پوچھا کہ وہ چھتہ میں کس طرح رہتی ہیں؟ حکیم نے جواب دیا کہ وہ اپنے چھتہ میں نکمی مکھی کو رہنے نہیں دیتیں بلکہ اسے اپنے چھتہ سے نکال دیتی ہیں۔ اور اپنے گھر سے باہر کر دیتی ہیں کیوں کہ وہ بے مقصد ان کی جگہ تنگ کر دیتی ہے۔ اور شہد کھا کر ختم کر ڈالتی ہے۔ اسے معلوم ہے کہ کون مستعدی سے کام کرتی ہے اور کون سستی کرتی ہے۔ یہ مکھیاں سانپ کی طرح اپنی کینچلی اتارتی ہیں۔ ان کو سریلی اور اچھی آواز سے لذت ملتی ہے۔
شہد کی مکھی کی بیماری:
انھیں ایک بیماری ( جس میں گھن جیسے باریک کیڑے ان کے جسم کو کھاتے رہتے ہیں) بہت تنگ کر دیتی ہے۔ اگر اس میں مکھیاں مبتلا ہو جائیں تو اس کا علاج یہ ہے کہ مکھی کے چھتہ میں ایک مٹھی نمک چھڑک دیں۔ اور ہر ماہ ایک بار چھتہ کھول کر اس میں گائے کے گوبر کی دھونی دیدیں۔ ان کی ایک عادت یہ بھی ہے کہ یہ چھتہ سے اُڑ کر غذا حاصل کرنے جاتی ہیں۔ جب لوٹتی ہیں تو ہرمکھی اپنے ہی خانہ میں جاتی ہے اس میں بالکل غلطی نہیں کرتی۔
حدیث مبارک:
مستدرک حاکم میں ابو سبرہ ہذلی سے ایک روایت منقول ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے ایک حدیث بیان کی ہے۔ جس کو میں نے سمجھا ہے اور اپنے ہاتھوں سے لکھ کر بھی محفوظ کر لیا ہے وہ یہ ہے:
رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے والے اور بد کلامی کرنے والے۔ نیز بدترین پڑوسی اور قطع رحمی کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ مومن کی مثال شہد کی مکھی کی سی ہے کہ وہ اپنے چھتہ سے نکلتی ہے۔ حلال کھاتی ہے، بیٹ کرتی ہے مگرنہ تو کسی کوکوئی نقصان پہنچاتی ہے نہ کہیں توڑ پھوڑ کرتی ہے۔ اسی طرح مومن بھی اپنے کام سے کام رکھتا ہے کسی کو ایذ انہیں پہنچاتا، رزق حلال کھاتا ہے ۔‘‘
خصائل حمیدہ:
ابن اثیر نے لکھا ہے کہ مومن کو شہد کی مکھی سے تشبیہ دینے کی وجہ یہ ہے۔ دونوں میں بہت سی چیزوں میں مشابہت ہے۔ مثلاً فہم و فراست، کسی کو ضرر نہ پہنچانا، وعدہ پورا کرنا۔ دوسروں کو فائدہ پہنچانا، قناعت کرنا، دن میں تلاش معاش۔ گندگی سے دور رہنا، حلال کمائی کھانا اور اپنی کمائی کھانا، امیر کی اطاعت کرنا۔ نیز کچھ پریشانیاں شہد کی مکھی کا کام کاج بند ہونے کا سبب بن جاتی ہیں۔ مثلاً تاریکی، بادل، آندھی، دھواں، بارش اور آگ۔
اسی طرح کچھ اسباب سے مومن کا بھی کام رک جاتا ہے۔ (یعنی اعمال صالحہ جو وہ آخرت کے لیے ذخیرہ کرتا ہے ) اور وہ غافل ہو جاتا ہے۔ مثلاً غفلت کی تاریکی، شک کے بادل، فتنوں کی آندھیاں، حرام مال کا دھواں۔ مالداری کا پانی، نشہ اور خواہشات نفسانی کی آگ۔
شہد اور اس کی برکت:
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں میں اس طرح رہو جیسے پرندوں میں شہد کی مکھی رہتی ہے۔ کہ تمام پرندے اسے معمولی کمز ور و نا تو اں سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر انھیں شہد کی مکھی کے پیٹ کا شہد اور اس کی برکت و فوائد کا علم ہو جائے تو وہ اسے معمولی نہ سمجھیں۔ لوگوں کے ساتھ اپنے حلم اور زبان سے میل جول رکھو لیکن اپنے اعمال اور دلوں کو ان سے الگ رکھو۔ آدمی کو اس کا پھل ملے گا جو اس نے دنیا میں کر لیا ہے اور قیامت کے دن ہر شخص ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن سے اسے محبت ہو گی۔
سب سے بہتر کھانے کی چیز شہد ہے:
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دنیا کی مذمت میں یہ روایت مشہور ہے کہ آپ نے فرمایا: دنیا میں چھ قسم کی چیزیں ہیں؛ مطعوم، مشروب، ملبوس، مرکوب، منکوح، مشموم۔ سب سے بہتر کھانے کی چیز شہد ہے جو ایک مکھی کا تھوک ہے۔ سب سے عمدہ پینے کی چیز پانی ہے۔ جس میں اچھے برے سب برابر کے حصے دار ہیں۔ سب سے اچھا لباس ریشم ہے۔ جو ایک معمولی کیڑے کا بنایا ہوا ہے۔ سب سے افضل سواری گھوڑا ہے۔ جس پر بیٹھ کر انسانوں کا قتل ہوتا ہے۔ سب سے شان دار خوشبو مشک ہے۔ جو ایک جانور کا خون ہے۔ سب سے بڑھیا منکوح عورت ہے جو پیشاب کرنے کی جگہ ہے اور ایسی ہی گندی جگہ سے نکلی ہے۔ (یعنی اس کی پیدائش بھی پیشاب والی جگہ سے ہوتی ہے)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص ہر مہینے تین دن صبح نہار منہ شہد چاٹ لیا کرے تو اسے کوئی اہم بیماری لاحق نہیں ہوگی۔ حضرت عمر کو جب کوئی مرض لاحق ہوتا تھا۔ آپ شہد سے علاج کرتے تھے یہاں تک کہ پھوڑے پھنسی پر بھی شہد کا ہی مرہم لگاتے تھے۔ اور کسی جانور کے ڈسنے کی جگہ بھی شہد مل لیتے تھے اور شہد کے فوائد کی آیتیں تلاوت کرتے تھے۔
شہد میں تندرستی ہے:
عوف بن مالک کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بار وہ بیمار ہو گئے۔ فرمایا کہ پانی لاؤ اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ نَزَّلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً مُّبٰرَكًا
اور ہم نے آسمان سے برکت والا پانی اُتارا۔ (ق: ۹)
پھر کہا شہد لاؤ اور اس کے متعلق آیت:
وَ اَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِشُوْنَۙ ثُمَّ كُلِیْ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ فَاسْلُكِیْ سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا یَخْرُ جُ مِنْۢ بُطُوْنِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ فِیْهِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ
اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو الہام کیا کہ پہاڑوں میں گھر بنا اور درختوں میں اور چھتوں میں۔ پھر ہر قسم کے پھل میں سے کھا اور اپنے رب کی راہیں چل کہ تیرے لیے نرم و آسان ہیں۔ اس کے پیٹ سے ایک پینے کی چیز رنگ برنگ نکلتی ہے جس میں لوگوں کی تندرستی ہے۔ (النحل: ۶۸،۶۹)
پڑھی، پھر زیتون کا تیل منگوایا اور پڑھا:
شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَیْتُوْنَةٍ
برکت والے پیڑ زیتون (سے) (النور: ۳۵)
پھر تینوں کو ملا کر نوش فرمایا، اللہ تعالیٰ نے شفا بخش دی۔
اس طرح دیکھیں تو اللہ کی ایک چھوٹی سی مخلوق شہد کی مکھی میں بے شمار خوبیاں۔ اور انسانوں کے لیے بے شمار اسباق ہیں۔ اسی طرح شہد کی مکھی بہت سی خوبیوں میں ایک بندۂ مومن سے مشابہت رکھتی ہے۔ کاش یہ انسان شہد کی مکھی سے درس حاصل کرے اور اس کے مطابق منظم زندگی بسر کرے۔ تو رب تعالیٰ راضی ہوگا اور ایسا انسان دینا و آخرت میں کامرانیوں سے ہم کنار ہوگا۔
(مضمون کا اکثر حصہ حیات الحیوان جلد دوم سے ماخوذ ہے)
Pingback: قوم سبا کی تباہی کا واقعہ Qaume Saba - fikroamal
Pingback: झारखण्ड वर्तमान ज्ञान Jharkhand Current Affairs - fikroamal