صورت سیرت کی عکاس نہیں
عام طور پر ہم لوگوں کو ان کی ظاہری شکل و صورت چال ڈھال اور رہن سہن سے جانچتے ہیں۔ لیکن اکثر جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں ہے اور جو ہوتا ہے وہ دکھتا نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم کسی کو بہت مالدار سمجھ رہے ہوں لیکن حقیقت میں وہ بہت غریب ہو۔ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ ہم کسی کو بہت مفلوک الحال سمجھ رہے ہوں لیکن وہ بہت مالدار ہو۔ کسی کو بہت عابد و زاہد اور نیک سمجھ رہے ہوں، لیکن وہ حقیقت میں بدکار و گنہ گار ہو۔ کسی کو بہت نیک سیرت سمجھ رہے ہوں، لیکن حقیقت میں بد کردار ہو۔
اسی لیے کسی کی ظاہری شکل و صورت سے اس کی حقیقت اور باطن کا حکم نہیں لگانا چاہیے۔ کیوں کہ صورت سیرت کی عکاس نہیں ہے۔ اللہ کے نزدیک ظاہری شکل و صورت کا اعتبار نہیں۔ بلکہ تقویٰ، حُسنِ نیت اور خلوص و للّٰہیت کا اعتبار ہے۔
حدیث مبارک:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ لاَ يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُمْ (صحیح مسلم: ۲۶۶۴)
ترجمہ: بیشک اللہ تمھاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا، لیکن تمھارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔
ذیل میں سلطان محمود غزنوی کا ایک واقعہ پیش ہے جو ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ صورت سیرت کی عکاس نہیں ہے:
سلطان محمود غزنوی دلیری و شجاعت، عدل و انصاف،انتظام سلطنت اور فتوحات کی دنیا کا ایک عظیم نام ہے۔ جو بے شمار دینی و دنیوی خوبیوں کے حامل اور ایک عظیم سلطنت کے حکمراں تھے۔ گیارہویں صدی عیسوی کے اس بطلِ جلیل نے اعلاے کلمۃ الحق کے لیے بہت سے کارہاے نمایاں انجام دیے ہیں۔ میں یہاں تاریخ کے اوراق سے ان کا ایک مکالمہ پیش کرتا ہوں جو باعث درس و موعظت ہے۔
محمود غزنوی کا واقعہ:
مؤرخین کا بیان ہے کہ سلطان محمود غزنوی خوشنما اور ور خوبصورت نہیں تھے۔ ایک دن انھوں نے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا تو اپنی بدصورتی سے بہت رنجیدہ اور پریشان ہوئے۔ اور اپنے وزیر سے کہا: ’’مشہور ہے کہ بادشاہوں کی صورت دیکھ کر آنکھوں میں روشنی آتی ہے۔ ایک میری صورت ہے کہ جسے دیکھ کر شاید دیکھنے والوں کو تکلیف ہوتی ہو۔‘‘ وزیر نے جواب دیا: آپ کی صورت تو شاید ہزاروں میں ایک دیکھتا ہو، لیکن آپ کی سیرت سے سب کو تعلق ہے۔
آپ اگر عمدہ سیرت کے حامل ہو جائیں گے اور ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے تو لوگوں میں ہر دل عزیز ہو جائیں گے۔ سلطان کو وزیر کی بات بہت پسند آئی اور اسی طرح عمل کرتے رہے۔ یعنی پہلے سے نیک سیرت تھے ہی۔ مزید خود کو اس طرح خوبیوں کا حامل بنا لیا کہ شاہانِ وقت میں مقبول ترین اور محبوب ترین ہو گئے۔
اس سے جہاں یہ درس ملتا ہے کہ صورت سے سیرت کا اندازہ نہیں لگانا چاہیے۔ وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صورت سیرت کی عکاس نہیں ہے۔
Pingback: ایمان فروشی کی روایت Iman Faroshi - fikroamal