قابیل و ہابیل کا واقعہ Qabil o Habil

قابیل و ہابیل

قابیل و ہابیل کا واقعہ

قابیل و ہابیل حضرت آدم علیہ السلام کی صلبی اولاد سے تھے، قابیل بڑا تھا۔ ہابیل چھوٹا تھا۔ قابیل کھیتی باڑی کرتا تھا اور ہابیل بکریاں چراتا تھا۔ قابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی کا نام ” اقلیما “ تھا جو بہت زیادہ حسین و جمیل تھی اور ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی ’’لیوا‘‘ خوبصورتی میں کچھ کم تھی۔ حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت کے قانون کے مطابق قابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی کا نکاح ہابیل سے اور ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی کا نکاح قابیل سے ہونا تھا، لیکن قابیل نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اس نے کہا کہ میرے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی کا نکاح ہی میرے ساتھ ہوگا۔

حضرت آدم کا قابیل و ہابیل کو نیاز کا مشورہ:

جب قابیل نے ضد اور ہٹ دھرمی شروع کر دی تو حضرت آدم علیہ السلام نے کہا کہ تم دونوں اللہ کی راہ میں کوئی نہ کوئی چیز پیش کرو۔ جو سچا ہو گا اس کی نیاز و صدقہ قبول ہو جائے گا اور جو جھوٹا ہو گا اس کی طرف سے پیش کیا گیا صدقہ قبول نہیں ہوگا۔ اس وقت قبولیت کی یہ علامت تھی کہ جس کا صدقہ قبول ہو جاتا اسے قدرتی طور پر آنے والی آگ کھا جاتی اور جو قبول نہیں ہوتا اسے آگ نہیں کھاتی تھی۔ قابیل نے ایک انبار گندم اور ہابیل نے ایک بکری یا ایک دنبہ رب تعالیٰ کی راہ میں پیش کیا۔ دونوں نے یہ کہہ کر نیاز پیش کی کہ اے اللہ! جو اقلیما کا زیادہ حقدار ہے اس کی قربانی قبول فرما۔
آسمانی آگ نے ہابیل کا صدقہ کھا لیا اور قابیل کے صدقہ دھرا رہ گیا۔ قابیل کے دل میں حسداور بغض و عناد بھڑک اٹھا۔ اس نے ہابیل کو قتل کرنے کی دھمکی دے دی۔

قرآن میں واقعہ قابیل و ہابیل کا ذکر:

اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کو اس طرح ذکر فرمایا:
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ. اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ. قَالَ لَاَقْتُلَنَّكَ. قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ(۲۷) لَىٕنْۢ بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَكَ لِتَقْتُلَنِیْ مَاۤ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْكَ لِاَقْتُلَكَ. اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ(۲۸) اِنِّیْۤ اُرِیْدُ اَنْ تَبُوْٓءَاۡ بِاِثْمِیْ وَ اِثْمِكَ فَتَكُوْنَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ. وَ ذٰلِكَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیْنَ(۲۹) (المائدہ: ۵؍۲۷۔۲۹)
اور انہیں پڑھ کر سناؤ آدم کے دو بیٹوں کی سچی خبر۔ جب دونوں نے ایک ایک نیاز (قربانی)پیش کی تو ایک کی قبول ہوئی اور دوسرے کی نہ قبول ہوئی۔ بولا قسم ہے میں تجھے قتل کردوں گا۔ کہا اللہ اسی سے قبول کرتا ہے جسے ڈر ہے۔ بے شک اگر تو اپنا ہاتھ مجھ پر بڑھائے گا کہ مجھے قتل کرے تو میں اپنا ہاتھ تجھ پر نہ بڑھاؤں گا کہ تجھے قتل کروں۔ میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو مالک سارے جہان کا۔ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میرا اور تیرا گناہ دونوں تیرے ہی پلہ پڑے تو تو دوزخی ہوجائے۔ اور بے انصافوں کی یہی سزا ہے۔

آخر کار قابیل نے ہابیل کو قتل کر دیا:

 

فَطَوَّعَتْ لَهٗ نَفْسُهٗ قَتْلَ اَخِیْهِ فَقَتَلَهٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (المائدہ: ۵؍۳۰)
تو اس کے نفس نے اسے بھائی کے قتل کا چاؤ دلایا(قتل پرابھارا) تو اُسے قتل کردیا تو رہ گیا نقصان میں۔
روے زمین پر پہلا قتل:
آدم علی السلام مکہ گئے ہوئے تھے۔ اس نے ان کے پیچھے اپنے بھائی کو قتل کر دیا۔ یہ روے زمین پر پہلا قتل تھا اس لیے قابیل جانتا نہیں تھا کہ وہ اپنے بھائی کو کیسے قتل کرے۔ تو شیطان لعین نے اس کے سامنے ایک پرندے کا سر پتھر پر رکھ کر دوسرے پتھر سے پھوڑ دیا ۔ قابیل کو پتہ چل گیا کہ اس طرح قتل کرنا ہے۔ ہابیل چونکہ بکریاں چراتے تھے ایک درخت کے نیچے سوئے ہوئے تھے۔ قابیل نے ان کے سر پر پتھر مار کر انہیں قتل کر دیا۔ اس وقت ہابیل کی عمر بیس سال تھی۔

قتل کے بعد قابیل کی دنیا میں ذلت:

حضرت عبد الرحمن بن فضالہ سے مروی ہے کہ جب قابیل نے ہابیل کو قتل کر دیا تو اس کی عقل زائل ہوگئی۔ دل میں سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو گئی۔ اسی طرح پاگل ہی رہا یہاں تک کہ مرگیا۔ قتل کرنے سے پہلے رنگ اس کا سفید تھا اور قتل کے بعد اس کا تمام کالا ہو گیا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کی سرزمین سے واپس ہونے پر قابیل سے پوچھا: تمہارا بھائی کہاں ہے؟ اس نے کہا:میں کوئی اس کا ذمہ دار تو نہیں تھا۔ آپ نے فرمایا: تو نے اسے قتل کر دیا ہے اسی لیے تیرا جسم سیاہ ہو چکا ہے۔

قابیل کا اخروی عذاب:

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص بھی ظلماً قتل ہوگا اس کے قتل کا عذاب آدم علیہ السلام کے پہلے قاتل بیٹے پر بھی ہوگا۔ کیونکہ سب سے پہلے اس نے قتل کی ابتدا کی۔ یعنی جس طرح قتل کرنے والے کو قتل کا عذاب ہو گا اسی طرح قتل کی ابتدا کرنے والے کو بھی عذاب ہوتا رہے گا۔

قتل کے بعد قابیل کی پریشانی:

قابیل نے جب ہابیل کو قتل کر دیا تو اب یہ نہیں جانتا تھا کہ کیا کرے؟ اسی طرح چھوڑ دینے پر اسے یہ خطرہ تھا کہ درندے کھا جائیں گے۔ تو وہ اپنے بھائی کی لاش کو بوری میں ڈال کر پھرتا رہا یہاں تک کہ لاش بد بودار ہوگئی۔ اسے چھپانے کا کوئی طریقہ معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ میں کیا کروں؟ بہت ہی پریشان تھا۔ خیال رہے قرآن پاک میں اس مقام پر لاش کے لیے لفظ ’’سوءة “ استعمال ہوا۔ جس کا اصلی معنی ننگیز ہے یعنی جسم کا وہ حصہ جو ظاہر نہ کیا جائے۔ کیوں کہ وہ بھی قتل کے بعد لاش چھپائے پھرتا تھا اس لیے اسے ’’سوءۃ‘‘ کہا گیا ہے۔

لاش چھپانے میں کوے کی مدد:

اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
فَبَعَثَ اللّٰهُ غُرَابًا یَّبْحَثُ فِی الْاَرْضِ لِیُرِیَهٗ كَیْفَ یُوَارِیْ سَوْءَةَ اَخِیْهِ. قَالَ یٰوَیْلَتٰۤى اَعَجَزْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِثْلَ هٰذَا الْغُرَابِ فَاُوَارِیَ سَوْءَةَ اَخِیْ. فَاَصْبَحَ مِنَ النّٰدِمِیْنَ (المائدہ: ۵؍۳۱)
تو اللہ نے ایک کو ابھیجا ز مین کرید نے لگا کہ اسے دکھائے کیوں کر اپنے بھائی کی لاش چھپائے۔ بولا: ہائے خرابی میں اس کو ے جیسا بھی نہ ہو سکا کہ میں اپنے بھائی کی لاش چھپاتا۔ تو پچھتاتا رہ گیا۔
سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ کتنا کریم ہے کہ قابیل مجرم ہونے کے باوجود جب اس پریشانی میں پھنسا ہوا تھا کہ اپنے بھائی کی لاش کیا کرے؟ دنیا میں پہلی موت تھی قبر کھود نے، دفن کرنے سے وہ بے خبر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی مشکل حل کرنے کے لیے کوے کو اس کا معاون بنا کر بھیجا۔

کوے نے کیسے معاونت کی؟

علامہ رازی رحمہ اللہ نے اس مقام پر تین وجہ بیان کی ہیں اگر چہ مشہور پہلی بات ہی ہے:
۱۔ا اللہ تعالی نے دو کوے بھیجے وہ دونوں لڑے۔ ایک نے دوسرے کو قتل کر دیا اور اپنی چونچ اور پنجوں سے زمین کو کریدا۔ اور مردہ کوے کی لاش کو اس گڑھے میں ڈال کر اوپر مٹی ڈال دی۔ اس سے قابیل کو بھی پتہ چل گیا کہ مجھے بھی ایسا ہی کرنا ہے۔ اور بہت پشیمان ہوا کہ میں اس کو ے سے بھی زیادہ عاجز ہو گیا، اتنا کام بھی نہ کر سکا۔
۲۔قابیل نے تنگ آکر ھابیل کی لاش کو اسی طرح پھینک دیا۔ اللہ تعالیٰ نے کو لے بھیجے جنہوں نے مٹی کھود کھود کر اس لاش پر ڈالی اور اسے چھپا دیا۔ یہ دیکھ کرقا بیل کو بہت افسوس ہوا کہ ہابیل کو اللہ نے کتنی عزت بخشی ہے اور میں کتنا ذلیل ہو گیا۔
کوے کی عام عادت یہ ہے کہ کوئی کھانے کی چیز اس کے پاس ہو تو وہ اسے دوسرے وقت کے لیے زمین میں دبادیتا ہے۔ اس نے جب کسی چیز کو زمین میں چھپایا تو قابیل کو پتہ چل گیا کہ مجھے اپنے بھائی کی لاش کو ایسے چھپاتا ہے۔ اور ساتھ ساتھ کوے سے کم علم رکھنے کی وجہ سے بہت پشیمان بھی ہوا کہ مجھ سے تو کو اہی اچھا ہے جسے چیزوں کو چھپانا آتا ہے۔

قابیل کو کس بات پر ندامت تھی:

قابیل کو ندامت اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے نہیں تھی اور نہ ہی وہ تائب ہو رہا تھا۔ بلکہ اسے ندامت اس پر ہوئی کہ وہ بھائی کی لاش کو اٹھائے پھرتا رہا اور کوے سے بھی کم عقل رہا کہ اسے دفن نہ کر سکا۔ اور اس وجہ سے نادم ہو رہا تھا کہ وہ بھائی کو قتل کرنے کے باوجود اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوا تھا۔ کیونکہ اس سے ماں باپ بہن بھائی سب ناراض ہو گئے تھے۔

اور وجہ یہ بھی تھی کہ جب اس نے دیکھا کہ ایک کوے نے بڑی مہربانی سے دوسرے کی لاش کو دفن کیا۔ تو یہ اس پر نادم ہوا تھا کہ مجھے تو اپنے بھائی پر اتنا رحم بھی نہیں آسکا جتنا کوے کو ہے۔ واضح ہوا کہ اس نے کوئی تو بہ نہیں کی اور ندامت اسے صرف اپنی حماقت پر تھی۔

واقعہ قابیل و ہابیل سے سبق:

اُس وقت بھی قربانی ہوتی تھی اور آج بھی قربانی ہوتی ہے۔ لیکن ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کی قربانیوں اور ہماری قربانیوں میں کتنا فرق ہے۔ وہاں بھی ظلم اور قتل ہوا تھا اور آج بھی ہوتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ اس وقت کا قتل اور قاتل ظاہر تھا اور آج کا قاتل پوشیدہ ہوا کرتا ہے۔ اُس وقت بھی سچ بظاہر ہار گیا تھا اور آج بھی یہی ہوتا ہے۔ لیکن بالحقیقت اللہ کے نزدیک سچ ہی کی فتح ہے اور جھوٹوں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔

(تلخیص از تذکرہ الانبیا، علامہ عبد الرزاق بھترالوی حطاروی مد ظلہ العالی)

فرشتے، جنات اور انسان Farishte, Jin Aur Insan

ظلم کا نجام Zulm Ka Anjam

1 Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *