قرآن و سنت کی روشنی میں مسجد اقصیٰ کی فضیلت و اہمیت
مسجد اقصیٰ تاریخ عالم میں اپنا ایک الگ مقام رکھتی ہے۔ تاریخی اعتبار سے بھی اور مذہبی اعتبار سے بھی مسجد اقصیٰ کو بڑی فضیلت حاصل ہے۔ یہ مسلمانوں کے لیے جتنی مقدس و متبرک ہے اسی قدر عیسائی اور یہودی بھی اسے اپنے لیے مقدس مانتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے، عیسائیوں کے لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے ولادت اور یہودیوں کے لیے مقام معاد و موعود۔ یہی وجہ ہے کہ اس مسجد نے تاریخ میں کئی حوادث اور تبدیلیاں دیکھی ہیں۔
مسجد اقصیٰ شہر القدس، فلسطین میں واقع ہے جسے (القدس کو) یہودی یروشلم کہتے ہیں۔ اس شہر نے ہر دور میں ظلم سہا، اسے کئی بار اجاڑا اور بسایا گیا، وہاں کئی بار خون کی ندیاں بہائی گئیں، کئی بار حملے کیے گئے اوروہ کئی بار محصور و مقبوض ہوا۔ مسلمانوں کے نزدیک مسجد اقصیٰ کو ’’المسجد الاقصیٰ‘‘ اور ’’الحرم القدسی الشریف‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے جب کہ یہودی اسے ’’ٹمپل ماؤنٹ‘‘ اور ’’قبۃ الصخرہ‘‘ کو ’’ڈوم آف دی راک‘‘ کہتے ہیں اور عیسائی ہیکل سلیمانی کہتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ کا پورا احاطہ حرم ِمسجد میں شامل ہے اور یہ پوری جگہ فضیلت و عظمت کی حامل ہے۔
بیت المقدس سے کیا مراد ہے:
بیت المَقدِس (میم پر زبر اوردال پر کسرہ کے ساتھ) سے مراد کچھ لوگ مسجد اقصیٰ لیتے ہیں اور کچھ لوگ شہر القدس۔ کثرت استعمال کے بعد بہت لوگ اسے بیت المُقدَّس ( میم پر پیش اور دال پر تشدید و زبر کے ساتھ) بھی پڑھنے لگے۔ بیت المقدس کا لفظ احادیث میں کثرت سے آیا ہے؛ کہیں بیت المقدس میں نماز پڑھنے اور کہیں بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا ذکر آیا ہے۔ اور ’’بیت‘‘ کا معنیٰ بھی گھر ہوتا ہے اور گھر کا اطلاق مسجد پر زیادہ درست ہے نہ کہ شہر پر، اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ بیت المقدس سے مراد مسجد اقصیٰ ہی ہے کہ وہ اللہ کا مقدس گھر ہے۔
جس طرح خانہ کعبہ اور مدینہ سے دور ہونے کی وجہ سے اس کا نام ’’مسجد اقصیٰ‘‘ رکھا گیا کیوں کہ ’’اقصی‘‘ کا معنیٰ دور ہوتا ہے یعنی دور کی مسجد۔ جو اس سے مراد شہر القدس لیتے ہیں وہ بھی درست ہو سکتے ہیں کیوں کہ قرآن مجید میں اسے ارض مقدسہ کہا گیا، اسی طرح حدیث پاک میں تحویلِ قبلہ کے باب میں بیت المقدس کو مکہ کے مقابل ذکر کیا گیا اور ایک جگہ اسے ارض حشر و نشر کہا گیا اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ بیت المقدس سے مراد شہر القدس ہے۔
دوسری سب سے قدیم مسجد:
مسجد اقصیٰ زمیں پر دوسری سب سے قدیم مسجد ہے اور فضیلت کے اعتبار تیسری۔ چناں چہ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرمایا:
سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنْ أَوَّلِ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الأَرْضِ قَالَ ’’الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ‘‘ قُلْتُ ثُمَّ أَىٌّ قَالَ ”الْمَسْجِدُ الأَقْصَى‘‘ قُلْتُ كَمْ بَيْنَهُمَا قَالَ”أَرْبَعُونَ عَامًا ثُمَّ الأَرْضُ لَكَ مَسْجِدٌ فَحَيْثُمَا أَدْرَكَتْكَ الصَّلاَةُ فَصَلِّ‘‘
ترجمہ: ”میں نے رسول اللہﷺ سے روئے زمین پر سب سے پہلے تعمیر کی جانے والی مسجد کے حوالے سے سوال کیا۔ آپ نے فرمایا:’’مسجد حرام ‘‘، میں نے عرض کی: پھر کون سی (مسجد تعمیر کی گئی) ؟ تو آپ نے فرمایا:’’مسجد اقصیٰ‘‘، میں نے عرض کی: ان دونوں کے درمیان کتنا وقفہ ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’چالیس سال، پھر پوری زمین تیرے لیے مسجد ہے، جہاں بھی تمھیں نماز کا وقت آجائے، نماز پڑھ لو ۔‘‘ (صحیح مسلم۔۵۲۰)
مسجد اقصیٰ شبِ معراج میں:
شبِ معراج کو رسول اکرمﷺ خانۂ کعبہ سے مسجد اقصیٰ تشریف لے گئے۔ یہاں یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ رسول اکرمﷺ نے مہینوں کی مسافت لمحوں میں طے فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے براق بھیجا اور آپ اس پر سوار ہو کر مسجد اقصیٰ پہنچے۔ وہاں تمام انبیاے کرام آپ کے منتظر تھے، آپ نے تمام انبیا کی امامت فرمائی اور پھر آسمانوں کی طرف پرواز کیا۔ اللہ تعالیٰ اسے قرآن میں یوں بیان کرتا ہے:
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَااِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
ترجمہ: پاکی ہے اسے جوراتوں رات اپنے بندے کو لے گیا۔ مسجدِ حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے گرداگرد ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں۔ بےشک وہ سنتا دیکھتا ہے۔ (بنی اسرائیل:۱)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مسجد اقصیٰ کے ارد گرد ہم نے برکت رکھی۔ کیوں کہ یہاں تمام انبیا جمع ہوئے۔ یہ جائے نزولِ وحی ہے۔ انبیاے کرام کی جائے عبادت ہے اور مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے۔
مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلۂ اول:
چناں چہ رسول اکرمﷺ نے ۱۶ یا ۱۷ مہینے مسجد اقصیٰ کی طرف رخ کرکے نماز ادا فرمائی۔ چناں چہ حدیث شریف میں اس کا ذکر موجود ہے:
عَنِ الْبَرَاءِ، رضى الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم صَلَّى إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا أَوْ سَبْعَةَ عَشَرَ شَهْرًا، وَكَانَ يُعْجِبُهُ أَنْ تَكُونَ قِبْلَتُهُ قِبَلَ الْبَيْتِ، وَإِنَّهُ صَلَّى ـ أَوْ صَلاَّهَا ـ صَلاَةَ الْعَصْرِ، وَصَلَّى مَعَهُ قَوْمٌ، فَخَرَجَ رَجُلٌ مِمَّنْ كَانَ صَلَّى مَعَهُ، فَمَرَّ عَلَى أَهْلِ الْمَسْجِدِ وَهُمْ رَاكِعُونَ قَالَ أَشْهَدُ بِاللَّہ لَقَدْ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قِبَلَ مَكَّةَ، فَدَارُوا كَمَا هُمْ قِبَلَ الْبَيْتِ، وَكَانَ الَّذِي مَاتَ عَلَى الْقِبْلَةِ قَبْلَ أَنْ تُحَوَّلَ قِبَلَ الْبَيْتِ رِجَالٌ قُتِلُوا لَمْ نَدْرِ مَا نَقُولُ فِيهِمْ، فَأَنْزَلَ اللہ
حضرت براء بن عاذب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے سولہ یا سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف (رخ کر کے) نماز پڑھی۔ اور آپ کو پسند تھا کہ خانہ کعبہ آپ کا قبلہ ہو۔ اور آپ نے نماز عصر پڑھی (یا پڑھائی) اور آپ کے ساتھ لوگوں نے نماز ادا کی۔
پھر آپ کے ساتھ نماز پڑھنے والوں میں سے ایک شخص نکلا اور ایک مسجد کے پاس سے گزرا۔ جہاں نمازی حالتِ رکوع میں تھے۔ اس نے کہا کہ میں اللہ کی قسم کھا کر گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ خانہ کعبہ کی طرف (منہ کر کے) نماز پڑھی۔ تو وہ جس حالت میں تھے (اسی حالت میں) خانہ کعبہ کی طرف گھوم گئے۔ وہ لوگ جو تحویلِ قبلہ سے پہلے (مسجد اقصیٰ کی طرف نماز پڑھتے ہوئے شہید ہو گئے)۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ ان (کی نمازوں) کے بارے میں کیا کہیں (قبول ہوں گی یا نہیں)
تو اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ نازل فرمائی:
وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ
ترجمہ: اور اللہ کی شان نہیں کہ تمہارا ایمان اکارت کرے۔ بےشک اللہ آدمیوں پر بہت مہربان مہر والا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری: ۴۴۸۶)
آیت کریمہ میں اس سے پہلے فرمایا: ’’ اور اے محبوب تم پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے وہ اسی لیے مقرر کیا تھا کہ دیکھیں کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔ اور بےشک یہ بھاری تھی مگر ان پر جنہیں اللہ نے ہدایت کی۔‘‘ (البقرۃ: ۱۴۳)
اس طرح ایمان والوں اور غیر ایمان والوں میں فرق ہو گیا کہ آپ کو ماننے والے آپ کے ساتھ خانہ کعبہ کی طرف گھوم گئے اور دوسروں نے مسجد اقصیٰ کو اپنا قبلہ برقرار رکھا۔
مسجد اقصیٰ کے لیے شدّ رحال:
مسجد اقصیٰ ان تین مساجد میں تیسری ہے جن کی طرف شدّ رحال (ثواب کی نیت سے سفر) کی اجازت ہے۔ چناں چہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
لاَ تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلاَّ إِلَى ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ مَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَسْجِدِي هَذَا وَمَسْجِدِ الأَقْصَى
ترجمہ: صرف تین مسجدوں کی طرف (بنیت ثواب) سفر کیا جائے: مسجد حرام (خانہ کعبہ)۔ میری مسجد (مسجد نبوی) اور مسجد اقصیٰ۔‘‘ (جامع ترمذی: ۳۲۶)
مسجد اقصیٰ میں نماز کی فضیلت:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’صَلاَةُ الرَّجُلِ فِي بَيْتِهِ بِصَلاَةٍ وَصَلاَتُهُ فِي مَسْجِدِ الْقَبَائِلِ بِخَمْسٍ وَعِشْرِينَ صَلاَةً وَصَلاَتُهُ فِي الْمَسْجِدِ الَّذِي يُجَمَّعُ فِيهِ بِخَمْسِمِائَةِ صَلاَةٍ وَصَلاَةٌ فِي الْمَسْجِدِ الأَقْصَى بِخَمْسِينَ أَلْفِ صَلاَةٍ وَصَلاَةٌ فِي مَسْجِدِي بِخَمْسِينَ أَلْفِ صَلاَةٍ وَصَلاَةٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ بِمِائَةِ أَلْفِ صَلاَةٍ‘‘
ترجمہ: اپنے گھر میں آدمی کی ایک نماز، ایک نماز کے برابر ہے۔ اس کی نمازمحلے کی مسجد میں پچیس نمازوں کے برابر ہے۔ اس کی نماز جامع مسجد میں پانچ سو نمازوں کے برابر ہے۔ مسجد اقصیٰ میں ایک نماز پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ میری مسجد (مسجد نبوی) میں ایک نماز پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ اور مسجد حرام (خانہ کعبہ) میں ایک نماز ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔“ (سنن ابن ماجہ: ۱۴۱۳)
ایک ہزار نماز کے برابر:
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں:
قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفْتِنَا فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ . قَالَ : أَرْضُ الْمَحْشَرِ وَالْمَنْشَرِ ائْتُوهُ فَصَلُّوا فِيهِ فَإِنَّ صَلاَةً فِيهِ كَأَلْفِ صَلاَةٍ فِي غَيْرِهِ . قُلْتُ أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ أَتَحَمَّلَ إِلَيْهِ قَالَ : فَتُهْدِي لَهُ زَيْتًا يُسْرَجُ فِيهِ فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَهُوَ كَمَنْ أَتَاهُ
ترجمہ: میں نے عرض کی، یا رسول اللہﷺ ہمیں بیت المقدس کے بارے میں بتائیں۔ فرمایا: وہ زمینِ حشر و نشر ہے۔ وہاں جاؤ اور اس میں نماز ادا کرو۔ کیوں کہ اس (مسجد اقصیٰ) میں ایک نماز دوسری مسجد (سواے خانہ کعبہ و مسجد نبوی) میں ایک ہزار نماز کے برابر ہے۔ میں نے عرض کی، اگر مجھ میں وہاں تک سفر کی استطاعت نہ ہو؟ فرمایا: پھر تیل کا ہدیہ بھیج دو جس سے اس میں روشنی کی جائے۔ جس نے ایسا کیا وہ ایسا ہی ہے جیسے وہاں گیا۔‘‘ (سنن ابن ماجہ: ۱۴۰۷)
روایتوں میں تطبیق:
پہلی روایت کے مطابق مسجد اقصیٰ میں ایک نماز پچاس ہزار کے برابر ہے۔ اور اس روایت کے مطابق ایک ہزار۔ اس تعلق سے دوسری روایتیں بھی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق مسجد حرام میں ایک نماز (کا ثواب) ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔ مسجد نبوی میں ایک ہزار نمازوں کے برابر۔ اور مسجد اقصیٰ میں پانچ سو نمازوں کے برابر۔ ایک روایت کے مطابق مسجد اقصیٰ کی چار نمازیں مسجد نبوی کی ایک نماز کے برابر ہے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ مسجد نبوی میں ایک نماز ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ اس سے کچھ لوگوں نے حساب لگایا کہ مسجد اقصیٰ میں ایک نماز دو سو پچاس نمازوں کے برابر ہونا چاہیے۔ بہر حال جو بھی ہو ہمیں بس اتنا جان لینا چاہیے کہ مسجد اقصیٰ حرمین شریفین کے بعد فضیلت میں تیسرے مقام پر ہے۔
مسجد اقصیٰ سے احرام باندھنے کی فضیلت:
مَنْ أَهَلَّ بِحَجَّةٍ أَوْ عُمْرَةٍ مِنَ الْمَسْجِدِ الأَقْصَى إِلَى الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ أَوْ وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ
ترجمہ: جو مسجد اقصی سے مسجد حرام تک حج یا عمرہ کا احرام باندھے۔ اس کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ یا اس کے لیے جنت واجب ہوجائے گی۔“ (سنن ابی داؤد: ۱۷۴۱)
نوٹ: اس مضمون میں صرف مسجد اقصیٰ کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ مسجد اقصیٰ کی تعمیر اور شہر القدس کے حوالے سے دوسرے مضمون میں گفتگو کی جائےگی۔
محمد دلشاد احمد مصباحی
محنت ایک دن ضرور رنگ لائے گی۔
ان شاء اللہ