موت کیا ہے
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
اللہ تعالیٰ نے جب زمین پر انسان کو آبادکرنے کا ارادہ فرمایا۔ تو سب سے پہلے ابو البشرحضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا۔ آپ کا پُتلہ ایک مٹھی مٹی سے تیار کیا گیا جو تمام روے زمین سے لی گئی تھی۔ پھر اسے مختلف پانیوں سے گوندھی گئی۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے دستِ قدرت سے حضرت آدم کی صورت بنائی۔ پُتلہ تیار ہونے کے بعد اسے سکھایا گیا یہاں تک کہ وہ کھنکھناتی مٹی ہو گئی۔ پھر اس میں روح ڈالی گئی تو حضرت آدم کی پیدائش ہو گئی۔ آدم زمین پر تشریف لائے اور آپ کی نسل سے پوری دنیا آباد ہو گئی۔
یہی روح ہے جو انسان کی زندگی اور موت کے درمیان فاصلہ ہے۔ اگر اس کے اندر روح موجود ہے تو انسان زندہ ہے۔ اور وہی روح اس کے اندر سے نکل جائے تو یہ انسان مردہ قرار پا جاتا ہے۔ اور دنیا سے عُقبیٰ میں پہنچ جاتا ہے۔
غرض کہ روح صرف زندگی اور موت کے درمیان کا فاصلہ ہی نہیں۔ بلکہ انسان کو ایک زندگی سے دوسری زندگی میں پہنچانے کا ذریعہ بھی ہے۔ جب اس کے اندر سے روح نکال لی گئی تو وہ مردہ ہے۔ پھر وہی روح اس کے اندر لوٹا دی جائےگی تو وہ زندہ ہو جائےگا۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
ثُمَّ اِنَّكُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ لَمَیِّتُوْنَ
پھر اس کے بعد تم ضرور مرنے والے ہو۔(المؤمنون:۲۳؍۱۵)
یعنی دنیا میں جو تمھارا وقت مقررہے وہ پورا کرنے کے بعد تم مر جاؤگے۔ اور اس سے کسی کو فرار نہیں۔
اللہ تعالیٰ رسول گرامی وقارﷺ سے ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّكَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّهُمْ مَّیِّتُوْنَ
بےشک تمہیں انتقال فرمانا ہے اور ان کو بھی مرنا ہے۔(الزمر:۳۹؍۳۰)
آیت کریمہ میں کفّار کا رد ہے جو رسول اکرمﷺ کی وفات کا انتظارکیا کرتے تھے۔ انھیں فرمایا گیا کہ خود مرنے والے ہو کر دوسرے کی موت کا انتظار کرنا حماقت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو ہمیشگی کی زندگی نہیں بخشی، چناں چہ ارشاد فرماتا ہے:
وَ مَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ اَفَاۡىٕنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ
اور ہم نے تم سے پہلے کسی آدمی کے لیے دنیا میں ہمیشگی نہ بنائی تو کیا اگر تم انتقال فرماؤ تو یہ ہمیشہ رہیں گے۔(الانبیاء: ۲۱؍۳۴)
رسولِ کریمﷺ کے دشمن اپنے ضلال و عناد (گمرہی اور دشمنی) سے کہتے تھے کہ ہم حوادثِ زمانہ کا انتظار کر رہے ہیں۔ عنقریب ایسا وقت آنے والا ہے کہ محمد (ﷺ) کی وفات ہو جائے گی۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی اور فرمایا گیا کہ دشمنان رسول کے لیے یہ کوئی خوشی کی بات نہیں۔ ہم نے دنیا میں کسی آدمی کے لیے ہمیشگی نہیں رکھی۔
شاعر نے کہا:
لن تغن عن ھرمزٍ یوماً خزائنُہ
والخلدَ قد حاولت عادٌ فما خلدوا
ہرمز کو کسی دن اس کے خزانے نے بے نیاز نہیں کیا اور قوم عاد نے ہمیشگی کا ارادہ کیا تو وہ ہمیشہ نہیں رہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِ
ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔(الانبیاء: ۲۱؍۳۵)
جو بھی آیا ہے اسے لوٹ کے جانا ہوگا
جو ملا اس پہ ہی دل کو بھی منانا ہوگا
سارے رشتے سبھی ناطے بھی یہیں تک ہوں گے
تنہا آیا تھا اسی طور پلٹنا ہوگا
جب انسان زمین پر آکر آباد ہوا اسی وقت رب نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ زمین کے اوپر تمھیں ایک مقرر مدت تک ہی ٹھہرنا اور اس سے فائدہ اٹھانا ہے۔ اس کے بعد اسے چھوڑ جانا ہے، فرماتا ہے:
وَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ
اور تمھیں زمین میں ایک وقت تک ٹھہرنا اور برتنا ہے۔ (الاعراف: ۷؍۲۴)
شاعر نے کہا:
العمرُ مثل الضیف أو کالطیف لیس لہ إقامۃ
عمر مہمان کی طرح ہے یا خواب کی طرح اس کے لیے کوئی ٹھہراو نہیں۔
نہ انسان کو یہ معلوم ہے کہ وہ کب مرےگا نہ ہی یہ کہ وہ کہاں مرےگا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌۢ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُؕ
اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کس زمین میں مرے گی۔(لقمان: ۳۱؍۳۴)
اللہ کے خاص بندے اس سے مستثنیٰ ہیں۔ یعنی اللہ جسے اس کا علم عطا کر دے وہ جانتا ہے۔
انسان کا جو وقت مقرر ہے موت اسے آلے گی چاہے وہ جہاں بھی ہو۔ مضبوط دیواریں، قلعے اور لاکر کوئی چیز اسے بچا نہیں سکتی۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ كُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَةٍ
تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمہیں ضرور پکڑ لے گی اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں ہو ۔ (سورة النساء: ۵؍۸۷)
یوں تو موت سے کسی عقل و شعور والے کو انکار نہیں۔ ہر کوئی یہ جانتا اور مانتا ہے کہ موت ایک دن آنی ہے۔ لیکن وہ کب اور کس عمر میں آئےگی، یہ پتہ نہیں ہے۔ مومن صرف جانتا اور مانتا ہی نہیں، بلکہ یہ اس کے ایمان کا حصہ ہے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،فرماتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّى يُؤْمِنَ بِأَرْبَعٍ: يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ بَعَثَنِي بِالْحَقِّ وَيُؤْمِنُ بِالْمَوْتِ وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَيُؤْمِنُ بِالْقَدَرِ۔ (مشکات: ۱۰۴)
بندہ مومن نہیں ہوتا یہاں تک کہ چار چیزوں پر ایمان لے آئے: گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، اللہ نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ موت اور موت کے بعد اٹھائے جانے پر ایمان لے آئے اور تقدیر پر ایمان لے آئے۔
موت کو یاد کرنے والا عقل مند ہے:
حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اللہﷺ کی بارگاہ میں بیٹھا ہوا تھا۔ ایک انصاری شخص آپ کے پاس آیا اور سلام کرنے کے بعد عرض کی:
يَا رَسُولَ اللَّهِ أَىُّ الْمُؤْمِنِينَ أَفْضَلُ قَالَ : أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا . قَالَ فَأَىُّ الْمُؤْمِنِينَ أَكْيَسُ قَالَ : أَكْثَرُهُمْ لِلْمَوْتِ ذِكْرًا وَأَحْسَنُهُمْ لِمَا بَعْدَهُ اسْتِعْدَادًا أُولَئِكَ الأَكْيَاسُ(ابن ماجہ: ۴۲۵۹)
یا رسول اللہ! کون سا مومن افضل ہے؟ آپ نے فرمایا : جو ان میں اخلاق کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہے۔ پھر عرض کی کہ کون سا مومن زیادہ عقل مند ہے؟ آپ نے فرمایا: جو ان میں سے سب سے زیادہ موت کو یاد کرنے والا ہے۔ اور اس کے بعد کے لیے اچھی تیاری کرنے والا ہے وہی زیادہ عقل مند ہے۔
دوسری روایت میں ہے، رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:
الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا وَتَمَنَّى عَلَى اللَّهِ(ترمذی: ۲۵۵۹)
عقل مند وہ ہے جو اپنا محاسبہ کرےاور موت کے بعد والی زندگی کے لیے عمل کرے۔ اور عاجز وہ ہے جو اپنی خواہشات کی پیروی کرے اور اللہ سے امیدیں رکھے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ موت کو یاد کرنے والا اگرچہ دنیا کی نظروں میں بے وقوف اور نادان ہو۔ لیکن کل قیامت کے دن وہی عقل مند اور ہوشیار ہوگا۔ اور نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے والا اگرچہ دنیا کی نظروں میں خوب صورت اور شان و شوکت والا ہو۔ لیکن اللہ کی بارگاہ میں وہ عاجز اور بے وقوف ہے۔ اور اس کا اللہ سے امیدیں باندھنا بغیر بیج بوئے فصل کاٹنے کی امید کرنا ہے۔
موت شہوات کو ختم کرتی ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’أَكْثِرُوا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ‘‘ (ابن ماجہ: ۴۲۵۸)
راوی فرماتے ہیں يَعْنِي الْمَوْتَ مطلب شہوتوں کو توڑنے والی چیز موت ہے۔
حکایت:
حکایت ہے کہ ایک شخص نے اپنے نفس کا محاسبہ کیا تو اس نے اپنی عمر کا حساب لگایا تو وہ ساٹھ سال کی ہوئی۔ پھر اس نے دنوں کا حساب کیا تو وہ ۲۱ ہزار نو سو دن ہوئے۔ تو وہ یاویلاہ کہتے ہوئے چیخ پڑا کہ ہاے افسوس اگر روزانہ میرا ایک گناہ ہو تو میں گناہوں کی اس تعداد کے ساتھ کس طرح اللہ تعالیٰ کا سامنا کروں گا۔
پھر وہ بے ہوش ہو کر گر پڑا، جب ہوش آیا اسی بات کو دہرایا اور کہا: پھر اس شخص کا کیا حال ہوگا جس کے ہر روز دس ہزار گناہ ہوں۔ پھر بے ہوش ہوکر گر پڑا۔ لوگوں نے اسے حرکت دی، لیکن وہ مر چکا تھا۔
موت کی یاد کے فوائد:
موت تو ہمارے ایمان کا حصہ ہے ہی اگر ایک بندۂ مومن موت کو یاد کرتا رہے تو وہ بے شمار فوائدسے ہمکنار ہوتا ہے۔ اس کی یاد قبر و حشر کی منزل آسان کرتی ہے۔ گناہوں کو مٹاتی اور دنیا سے بے رغبت کرتی ہے۔ غموں کو دور کرتی ہے۔ توبہ کی توفیق ملتی ہے۔ قناعت کی دولت نصیب ہوتی ہے اور عبادت میں چُستی پیدا ہوتی ہے۔
موت کی یاد دل میں بسا لینے سے دنیا کی مصیبتیں آسان ہوتی ہیں۔ دل کی سختی دور ہوتی ہے اور نرمی پیدا ہوتی ہے۔ موت کی یاد سے امیدیں کم ہوتی ہیں اور آخرت سے انس و لگاو پیدا ہوتا ہے۔ نفسانی خواہشات کا خاتمہ ہوتا ہے اور آخرت کی تیاری میں مدد ملتی ہے۔
ناگہانی حادثات سے موت:
موت کا وقت انسان کو معلوم نہیں وہ یہ جانتا ہے پھر بھی اسے باربار ناگہانی حادثات کے ذریعہ جگایا جاتا ہے۔ لیکن یہ انسان جاگنے کا نام نہیں لیتا۔ اور خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوتا نہ ہی بے راہ روی سے باز آتا ہے۔ انسان کے مشاہدے میں بارہا آتا ہے کہ کسی کا بچپن میں انتقال ہو جاتا ہے۔ کسی کی موت کسی بیماری سے واقع ہو جاتی ہے۔ کوئی ایکسیڈنٹ سے دنیا چھوڑ جاتا ہے۔ کوئی حملے کا شکار ہو کر دارِ آخرت کی طرف کوچ کر جاتا ہے۔
غرض کہ انسانوں کے ذہنوں میں جو بات بیٹھی ہوئی ہے کہ آدمی بُڑھاپے کو پہنچنے کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے۔ بارہا اس کے خلاف ہوتا ہے جن سے انسان کو جھنجھوڑا جاتا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ انسان نہیں جاگتا اور ہوش کے ناخن نہیں لیتا۔
جب اسے چاہیے تھا ان واقعات سے سبق حاصل کرتے ہوئے خود کو موت کے لیے تیار کرے۔ تب وہ ناگہانی حادثات پر تبصرے کرتا ہے۔ اور طرح طرح کی باتیں ان کے درمیان گردش کرتی ہیں۔ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ انسان کا وقت مقرر ہے۔ جب اسے مرنا ہے اور اس دنیا کو چھوڑ جانا ہے چاہے موت جس صورت میں واقع ہو۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ
اور ہر گروہ کا ایک وعدہ ہےتو جب ان کا وعدہ آئے گا ایک گھڑی نہ پیچھے ہو نہ آگے۔(الاعراف: ۷؍۳۴)
لہٰذا ہمیں زندگی کی جو گھڑیاں میسر ہیں انھیں غنیمت سمجھتے ہوئے ان سے خوب استفادہ کرنا چاہیے اور خدا و رسول کے احکام کے مطابق زندگی بسر کرتے ہوئے آخرت کے لیے زیادہ سے زیادہ توشہ اکٹھا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔