نمَاز میں شفا ہے Namaz Me Shifa

نمَاز

نمَاز اہم  الفرائض بھی ہے اور دوا و شفا بھی

اللہ ربُّ العزت کا اپنے بندوں پر بے پایاں فضل واحسان ہے کہ جہاں انھیں زندگی عطا کی۔ عقل وشعور او ر فکر و آگہی جیسی بیش قیمت نعمتوں سے نوازا۔ اور دیگر سارے حیوانات پر فضل وشرف بخشا۔ وہیں نمَاز جیسی گراں بہا اور پر منفعت سرمایے سے ان کو سرفراز فرمایا۔ اور اسے اپنی مقدس بارگاہ سے تقرب، زاد آخرت کی احسن طریقے سے ذخیرہ اندوزی، اور جسم وروح کے لیے پاکیزگی اور تازگی کے حصول کا ذریعہ بنایا۔

نمَاز دین اسلام کا اہم فریضہ ہے:

ارشاد ربانی ہے:
”وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ‘‘
اور نمَاز قائم رکھو، زکات دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔“ (البقرۃ : ۲؍۴۳)
اور یہ صرف فریضہ ہی نہیں ہے، بلکہ سب سے اہم فریضہ ہے؛ کیوں کہ اس میں سارے اعضا کو کام میں لگایا جاتا ہے، اس کی ادائگی کے وقت کوئی دوسرا کام نہیں کیا جا سکتا، بلکہ خیال بھی نہیں کیا جاتا، ہر دن پانچ بار ادا کی جاتی ہے، صحت اور بیماری ہر حالت میں فرض ہے۔ تو دوسری طرف ساری بے حیائیوں اور برائیوں سے کنارہ کشی اور بیماریوں سے شفا یابی کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔

بندہ جب کامل بندگی، اخلاص اور فروتنی کے ساتھ اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوتا ہے تو خوف خداوندی اور اس عظیم الشان بارگاہ کی سرمدی لذتوں سے سرشار ہوتا ہے،برے کاموں سے دور ہوتا چلا جاتا ہے اور ہر ناروا فعل کے تعلق سے اس کے دل میں نفرت اور ناپسندیدگی جا گزیں ہوجاتی ہے۔ پھر ان نورانی رشتوں اور خدائی برکتوں کے صدقے بندہ ہر بیماری وپریشانی اور آفت ومصیبت سے نجات پاجاتا ہے۔

نمَاز میں جسمانی و روحانی شفا ہے:

ایک طرف نمَاز انسانی جسم کے بیرونی اعضا کو صحت وتوانائی، خوب صورتی اور تازگی فراہم کرتی ہے، تو دوسری طرف اندرونی اعضا مثلاً دل، دماغ، جگر، گردہ، پھیپھڑا، آنتیں، معدہ، ریڑھ کی ہڈی، گردن، سینہ اور تمام قسم کے غدود (Glands) کی صحت اور نشو ونما میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ نمَاز کی ادائگی میں جسمانی اعضا کے ہر جوڑ میں حرکت ہوتی ہے، جس سے خون کی روانی برقرار رہتی ہے، اعضا اعتدال کے ساتھ کام کرتے رہتے ہیں۔

پھر سستی اور کاہلی دور ہوجاتی ہے، جسم کو چستی اور جوش حاصل ہوتا ہے۔ دل ودماغ کو سکون ملتا ہے۔ آنکھوں کو بصارت ملتی ہے، کانوں کی سماعت متوازن رہتی ہے۔ چہرے بشرے کو خوب صورتی نصیب ہوتی ہے اور جسم کا توازن برقرار رہتا ہے۔ ایک تھکا ماندہ اور پریشان انسان بھی نمَاز کے ذریعہ سکون وقرار اور راحت پا لیتا ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ

اعلان قرآن ہے:

’’اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَر‘‘
بے شک نمَاز بے حیائی اور بری بات سے روکتی ہے۔“ (العنکبوت : ۲۹؍ ۴۵)
اور فرمان نبوی ہے:
’’فَإِنَّ فِي الصَّلَاةِ شِفَاءً‘‘
بے شک نماز میں شفا ہے۔“ (سنن ابن ماجہ، کتاب الطب، باب الصلاۃ شفاء ، حدیث نمبر: ۳۴۵۸)

نمَاز بہترین ورزش بھی ہے:

ورزشی نظام میں آج ہر عمر کے افراد کے لیے الگ الگ طریقے متعین کیے جاتے ہیں، لیکن نمَاز ایک اہم عبادت ہونے کے ساتھ ساتھ ایسی ورزش بھی ہے جو ہر عمر اور ہر شعبے کے افراد کے لیے یکساں مفید اور کار آمد ہے۔ ’’صحت مند جسم میں ہی صحت مند دماغ ہوتا ہے‘‘۔ نماز کی ادائگی سے اس فارمولے پر مکمل طور سے عمل ہوجاتا ہے؛ کیوں کہ نمَاز کے اندر ورزش کی وہ تمام صورتیں اور حرکتیں موجود ہیں جن کے ذریعہ جسم صحت مند اور دماغ متوازن رہتاہے۔

نمَاز اور یوگا کا تصور:

مغربی دنیا میں یوگا کی ورزشیں بہت مقبول ہو رہی ہیں۔ مغرب کے تمام ماہرین یوگا کی اہمیت وافادیت کے قائل ہیں۔ ذہنی انتشار، پریشانی اور بے خوابی کے مریضوں کو یوگا کی تلقین کی جاتی ہے۔ یوگا کی ورزشوں کا بنیادی اصول یہ ہے کہ مریض اپنی تمام تر توجہ اور دماغی قوت صرف ایک نکتے پر مرکوز(concentrate) کر دیتا ہے۔

ایک وقت میں صرف ایک ہی خیال ذہن میں موجود ہوتا ہے اور اس ایک خیال کے علاوہ ہر پریشانی اور فکر سے توجہ ہٹا لی جاتی ہے، جس سے دماغ رفتہ رفتہ پر سکون ہو جاتا ہے، مریض کو اپنے خیالات وتصورات پر قابو حاصل ہو جاتا ہے اور یوں ذہنی انتشار اور پریشانی ختم ہو جاتی ہے۔ بے خوابی کے مریض عموماً ذہنی انتشار کے شکار ہوتے ہیں۔ انھیں سونے سے پہلے یوگا کی مشق کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
نمَاز کی ادائگی ان سارے فوائد کے حصول کے لیے کافی ہے جو یوگا سے حاصل ہوتے ہیں، بلکہ ان سے زیادہ فوائد حاصل ہوتے ہیں، وہ بھی آسانی سے بغیر کسی جدو جہد کے؛ کیوں کہ رسول گرامی وقار ﷺ کی سنت کے مطابق نماز ادا کرنے کا طریقہ ہی یہی ہے کہ کامل خشوع، یکسوئی اور اخلاص کے ساتھ ادا کی جائے۔ ایسی نمَاز کے ذریعہ ذہنی مشق کے ساتھ جسمانی ورزش کا بھی حصول بہتر طریقے سے ہو جاتا ہے اور پھر سونے سے پہلے نماز عشا ذہنی سکون کے حصول کے لیے بہت مناسب اور اہم ہے۔

سانس کی مشق کا آسان طریقہ:

یوگی ماہرین کا کہنا ہے کہ نمَاز سانس کی مشق کا بالکل آسان طریقہ ہے۔ اس میں وہ تین مقام خاص طور سے ذکر کرتے ہیں۔ ایک قیام اور اس میں سجدہ کی جگہ نگاہ کا ارتکاز (concentration)۔ دوسرا رکوع میں پاوں کی جگہ نگاہ کا ارتکاز اور تیسرا سجدے میں سانس کی مشق اور اس کا ارتکاز۔ اسی لیے قرآن نے کامیاب نمازی اسی کو قرار دیا جو خشوع وخضوع یعنی دل کی کامل توجہ سے نمَاز ادا کرے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
”قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ“
بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نمَاز میں گڑگڑاتے ہیں۔ (المؤمنون: ۲۳؍۱)
مذکورہ بالا سطور سے آفتاب نیم روز کی طرح بالکل عیاں ہو جاتا ہے کہ یوگا، جس میں ذہنی ورزش اور اطمینان کے لیے بے حد و حساب کوشش اور وقت صرف کیا جاتا ہے، اس کے مقابلے میں نماز جسمانی اعضا کی شفا یابی اور روحانی تسکین کی فراہمی میں بدرجہا بہتر ہے۔

نمَاز جسمانی و روحانی دوا ہے:

نمَاز کے ذریعہ بغض وکینہ، غصہ، حسد اور تمام روحانی امراض اور دماغی پریشانیوں سے نجات ملتی ہے۔ غصہ اور پریشانی کے سبب انسانی جسم کے اندر بے شمار ایسے ہارمونز (Hormones) پیدا ہو جاتے ہیں۔ جو جسمانی صحت کے لیے بے حد مضر ہوتے ہیں۔ انسان کا دوران خون (Blood Pressure) بڑھ جاتا ہے۔ دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔ خون میں شوگر (Sugar) کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور معدے میں تیزابیت (Acidity)پیدا ہو جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان کے اندر ایسی صورت زور پکڑ لے تو وہ موت وحیات کی کشمکش میں بے چین اور مایوسیوں کا پُلندہ نظر آتا ہے۔

ایسی صورت حال سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں۔ لیکن نماز ان تمام خرابیوں کے لیے بہترین علاج ہے۔ میڈیکل سائنس کے لحاظ سے پانچ وقت کی نمازوں میں تمام ورزشوں کی بہترین صورت پائی جاتی ہے۔ نظامِ انہضام (Digestion) اور دوران خون متوازن رہتا ہے۔ خون میں چربی (Cholesterol) کی مقدار میں کمی آتی ہے۔ پھر دل کے دورے (Heart Attack)، فالج(Palsy)، قبل از وقت بڑھاپا۔ مخبوط الحواسی (Randomness) اور ذیابیطس (Diabetes) وغیرہ بیماریوں سے نجات مل جاتی ہے۔

نمَاز اسلام کا اہم فریضہ:

اللہ رب العزت نے جس نمَاز کو اسلام کا فریضہ بنایا ہے۔ جسے اسلام میں سب سے اہم فریضہ ہونے کا مرتبہ حاصل ہے۔ اور جس کے بارے میں رسول اکرم ﷺ کا مبارک ارشاد ہے:
’’وَجُعِلَتْ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ‘‘
میری آنکھوں کی ٹھنڈک نمَاز میں رکھی گئی ہے۔ “ (سنن نسائی، کتاب عشرۃ النساء، باب حب النساء، حدیث نمبر: ۳۹۴۰)
اس میں ان سارے فوائد کا حصول ایک فطری اور لازمی امر ہے۔ اس سے بجا طور پر معلوم ہوتا ہے کہ نمَاز یقیناً ہر نمازی کے لیے وجہ قرار اور آنکھوں کی ٹھنڈک کی باعث ہے۔

نمَازوقفۂ آرام کا بابرکت ذریعہ:

انسان کام کرتے کرتے تکان اور اکتاہٹ محسوس کرنے لگتا ہے اور وہ وقفے اور آرام کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ اگر وہ مسلسل کام جاری رکھے اور تھکاوٹ کو نظر انداز کرتا رہے تو وہ اس کے خطرناک اثرات سے دو چار ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں ایک نمازی کے لیے نمَاز کی ادائگی سے جہاں وقفہ اور آرام ملتا ہے۔ وہیں جسمانی و روحانی طہارت و پاکیزگی اور کام کے لیے نیا جوش و ولولہ حاصل ہوجاتا ہے۔ جو نماز کے علاوہ وقفہ کرنے سے حاصل نہیں ہو سکتا ہے۔ جب کہ تمام ملازمین یا کسی فکری سیمینار کے حاضرین وقفے اور انٹرول کو برین فریشر (Brain Fresher) کے طور پر ضروری سمجھتے ہیں اورعمل بھی کرتے ہیں۔

نمَاز کے فوائد حاصل کرنے کا راز:

یقیناً نمَاز میں بے شمارحکمتیں اور طبی فوائد ہیں۔ جن کی طرف ہم نے اشارہ کر دیا ہے۔ اور آگے آنے والی سطور میں نمَاز کے شرائط اور ارکان کے ذکر کے ساتھ قدرے تفصیلی بحث کی جائے گی۔ جس سے نمَاز کی ہر ایک حالت کے فوائد اجاگر ہو کر آپ کے سامنے آجائیں گے۔ لیکن یہ سارے فوائد یوں ہی حاصل نہیں ہو تے۔ بلکہ ان کے لیے کچھ شرائط ہیں جن کا پایا جانا ضروری ہے۔
کوئی بھی کام ہو اس میں کما حقہ کامیابی کے لیے کامل اخلاص، نیک نیتی، یقین و توکل اور ریا و نمود سے دوری ضروری ہے۔میڈیکل سائنس کے ماہرین بھی ورزش کے جو طریقے وضع کرتے ہیں۔ ان مین یکسوئی، یقین اور اطمینان پر بھر پور زور دیتے ہیں۔ جس کی بہترین مثال یوگا ہے۔ اور جب نمَاز دین کا سب سے اہم فریضہ ہے، بارگاہ الہی میں قرب کا ذریعہ ہے۔ ساتھ ہی انسانی بدن کے لیے سب سے بہترین ورزش اور ساری بیماریوں کی دوا ہے۔ تو یہاں پر شدید ضرورت ہے کہ اس کی ادائگی میں بھر پور یکسوئی، اخلاص، خضوع وتذلل، فروتنی، نیک نیتی اور سکون و وقار سے کام لیا جائے۔ ورنہ ان فوائد کا حصول تو دور کی بات ہے نمَاز کی عدم قبولیت کا خطرہ بھی بر قرار رہے گا۔

اعلان قرآن ہے:

”وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِيَعْبُدُواوْا اللهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ حُنَفَآءَ‘‘
اور ان لوگوں کو تو یہی حکم ہوا کہ اللہ کی بندگی کریں نِرے اسی پر عقیدہ لاتے (سارے ادیان سےجدا) ایک (دین اسلام کی) طرف کے ہو کر۔ (البینۃ:۹۸؍۵)
اور رسول اکرم ﷺکا فرمان ہے:
”إِنَّ اللهَ لاَ يَقْبَلُ مِنَ الْعَمَلِ إِلاَّ مَا كَانَ لَهُ خَالِصًا وَابْتُغِيَ بِهِ وَجْهُهُ“
اللہ تعالیٰ صرف اسی عمل کو قبول فرماتا ہے جو خالص اسی کے لیے ہو۔ اور اس سے صرف اسی کی خوشنودی مقصود ہو۔ (سنن نسائی، کتاب الجھاد، باب من غزا یلتمس الاجر والذکر: ۳۱۴۰)

یوں تو نمَاز کے ذریعہ سکون و اطمینان کا حصول ہوتا ہی ہے۔ بس بندے کی طرف سے ہلکی سی توجہ کی ضرورت ہے۔ فرمان الہی ہے:
”اَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ“
سن لو اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے۔ (الرعد:۱۳؍۲۸)
لہذا ضرورت ہے کہ ہم سائنسی اور طبی فوائد ہی کے پیش نظر نمَاز نہ پڑھیں۔ بلکہ حکم الٰہی اور فریضہ دین کی حیثیت سے کمال بندگی اور جذبہ خلوص سے سرشار ہو کر پڑھیں۔ پھر دیگر فوائد اپنے آپ حاصل ہو جائیں گے۔

محمد دلشاد احمد مصباحی

نماز کا طریقہ Namaz Ka Tariqa

مذہب اسلام اور عبادات میں اعتدال

2 Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *